تحریر: انجینئر افتخار چودھری
آج پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ “کابل میں کوئی حکومت نہیں ہے، وہاں تو بس وہی طاقت کے بل پر بیٹھا ہے جو قابض ہے۔” یہ جملہ محض ایک خبر نہیں، ایک طمانچہ ہے ان سب چہروں پر جو اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھ کر آئین، قانون اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ دل سے بے اختیار ایک سوال ابھرا کہ اگر کابل طاقت کے بل پر چل رہا ہے تو اسلام آباد میں کون سا انصاف اور کون سی شفافیت باقی رہ گئی ہے؟ سترہ سیٹوں والے کاغذوں پر مسند نشین ہیں، جنہیں خود ان کے ایک ایم این اے نے کہہ دیا کہ “ہمارے پاس سترہ سے بھی کم نشستیں ہیں۔” پھر بھی حکومت کے تاج ان ہی کے سروں پر سجے ہیں۔ یہ وہی سیاسی منظر ہے جہاں عوامی مینڈیٹ کو دراز میزوں پر بیٹھے چند افراد نے یرغمال بنا لیا۔ طاقت کے توازن نے ووٹ کی حرمت کو پامال کر دیا۔ سچ یہ ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد جو تماشا برپا کیا گیا، وہ جمہوریت کے چہرے پر سیاہ داغ ہے۔ عمران خان کو جبری طور پر علیحدہ کرنا، ان کی جماعت کو دیوار سے لگانا، امیدواروں کو انتخابی نشان سے محروم کرنا، یہ سب کسی آئینی حکومت کے اعمال نہیں لگتے۔ طاقت کے نشے میں چور لوگ بھول گئے کہ اقتدار بندوق کے زور پر مل سکتا ہے، مگر دلوں کی حمایت صرف عدل سے جیتی جاتی ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کابل پر تنقید کی، لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ طاقت کے بل پر اگر حکومت کا معیار طے ہوتا ہے تو اسلام آباد اور کابل میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ دونوں جگہ قانون کی بجائے طاقت کا بول بالا ہے۔ کابل پر تنقید کرنے سے پہلے انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے تھا، جہاں آئین کے آرٹیکل، قانون کے حرف اور انصاف کے اصول روز پامال ہو رہے ہیں۔ یہی وہ موقع ہے جہاں قرآنِ مجید کی یہ آیت یاد آتی ہے:
“إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ”
(بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ — النحل: 90)
لیکن افسوس کہ ہمارے ایوانوں میں عدل کا نام صرف تقریروں تک محدود ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں قیدی نمبر 804 کا مقدمہ برسوں سے زیرِ التوا ہے۔ عدالتیں انصاف کے مینار کہلاتی ہیں، مگر ان کے دروازوں پر خاک اڑ رہی ہے۔ بڑے بڑے عدالتی کمپلیکس تعمیر ہوئے، لیکن انصاف کی روح غائب ہے۔ مقدمے کتابوں میں دفن ہیں، فائلیں بند الماریوں میں سو رہی ہیں، اور عوام انصاف کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ نورین خان نیازی — جو حسان نیازی کی والدہ اور میرے دیرینہ دوست حفیظ اللہ نیازی کی اہلیہ ہیں — نے حال ہی میں ایک دردناک پیغام دیا کہ “جب عدالتیں انصاف نہ دیں، تو لوگ قانون سے امید کیوں رکھیں؟” یہ جملہ دل میں تیر بن کر لگا۔ اگر عدالتیں اپنا کام نہ کریں، تو پھر فیصلے سڑکوں پر ہوتے ہیں، جیلوں میں ہوتے ہیں، یا طاقتوروں کے درباروں میں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب معاشرے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایسے انجام دیکھے ہیں۔ یاد آتا ہے جدہ کا وہ دن جب ایک وزیر اعلیٰ، غلام حیدر وائیں، وہاں ہمارے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے کہا: “جناب، آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کی بات کرتے ہیں مگر پنجاب کے حالات خود خدا کے حوالے ہیں۔” تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر کہا: “میں نے پولیس کو حکم دے رکھا ہے کہ حالات قابو میں لائے۔” مگر تاریخ نے کیا دیکھا؟ میاں چنوں میں ان کی گاڑی کو روکا گیا، اور جہانگیر ملوکا کے خاندان نے کلہاڑیوں سے ان کا قتل کر دیا۔ یہی انجام ہوتا ہے جب انصاف کی جگہ طاقت فیصلے کرے۔ انصاف کا پہیہ رک جائے تو ریاست کا جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں طاقتور کے لیے الگ قانون ہے، کمزور کے لیے الگ۔ ڈی چوک کی مٹی گواہ ہے کہ وہاں عوامی طاقت کو کیسے کچلا گیا۔ مریدکے کے میدانوں نے بھی وہ منظر دیکھا جہاں ریاست نے اپنے شہریوں کے خلاف طاقت آزمائی۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی جمہوریت ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں؟ اور اب عالم یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم اپنے ہی خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے کہتا ہے: “اگر عمران خان سے ملنا ہے تو پہلے مجھ سے پوچھ لینا۔” یا للعجب! ہم نے وزیراعظم بنایا تھا، کوئی اردلی تو نہیں بنایا تھا۔ یہ جملہ محض طنز نہیں، ایک عکاسی ہے اس سوچ کی جو اس وقت اسلام آباد کی کرسیوں پر براجمان ہے۔ یہ وہ طرزِ حکومت ہے جہاں “میں” قوم پر بھاری ہے، جہاں ادارے فرد کی انا کے غلام بن چکے ہیں۔ طاقت کے بل پر چلنے والی حکومتیں ہمیشہ اپنے ہی سایے سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ وہ عوام سے نظریں نہیں ملاتیں، میڈیا کو پابند کر دیتی ہیں، عدالتوں کو خاموش رکھتی ہیں، اور ہر اس آواز کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں جو “سچ” بولنے کی جرأت کرے۔ مگر تاریخ نے آج تک کسی ظالم کو دوام نہیں دیا۔ طاقت کے نشے میں بہکنے والے آخرکار تاریخ کے کچرے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ آج اسلام آباد میں کون حکومت کر رہا ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت “کیسے” ہو رہی ہے؟ کیا عوامی ووٹ کی عزت ہے؟ کیا عدالتوں میں انصاف میسر ہے؟ کیا میڈیا آزاد ہے؟ کیا عام آدمی کو یہ احساس ہے کہ اس کی آواز کسی ایوان تک پہنچتی ہے؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب “نہیں” ہے، تو پھر اسلام آباد اور کابل میں فرق صرف زبان اور لباس کا رہ گیا ہے، اصولوں کا نہیں۔ طاقت پر کھڑی حکومت کبھی دیرپا نہیں رہتی۔ قانون اور انصاف ہی وہ ستون ہیں جن پر ریاستیں کھڑی رہتی ہیں۔ اس لیے آج کے ترجمانِ خارجہ کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ جناب، بات کابل کی نہیں، اپنے ایوان کی کیجیے۔ جب آپ کا اپنا نظام انصاف لاچار ہو، جب عدلیہ فیصلے لکھنے کے بجائے نوٹ لکھنے میں مصروف ہو، جب اسمبلیوں میں عوام کی نہیں بلکہ “قابض قوتوں” کی نمائندگی ہو — تو پھر دوسروں پر انگلی اٹھانا منافقت نہیں تو کیا ہے؟ ہمیں اپنی عدالتوں کو زندہ کرنا ہوگا، اپنی سیاست کو شفاف بنانا ہوگا، اور اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ یہ وطن ان قربانیوں سے حاصل ہوا جن میں طاقت نہیں، ایمان شامل تھا۔ اسی ایمان کو بحال کرنا ہوگا۔ ورنہ ایک دن تاریخ ہمیں بھی کابل کی مثالوں میں شمار کرے گی۔