کچہری
میاں منیر احمد
آہ…… عزیر لطیف بھی الوداع ہوئے
تاروں بھرے کھلے آسماں کے نیچے انسان اس وقت کیا سوچ رہا ہوتا جب اس کے مہربان دوست بچھڑ جائیں‘ دوست بھی ایسے کہ جن کے چہروں پر صرف مسکراہٹ ہو‘ ان کی زبان گلے شکوؤں سے آشنا ہو‘ دل چشمے کے پانی طرح شفاف‘ ایسے مہربان دوست مل جائیں تو زندگی آسان رہتی ہے اور بچھڑ جائیں تو زندگی کی روشنیاں مدھم پڑجاتی ہیں‘ قبلہ عزیر لطیف‘ میرے ناظم بھی تھے‘ دوست بھی اور مہربان بھی‘ کرونا کی ظالم وباء نے ہم سے بہت سی قیمتی جانیں چھین لی ہیں‘ سید ناصر علی شاہ کا کفن ابھی میلا نہیں ہوا ہوگا کہ قبلہ عزیر لطیف کے انتقال کی خبر مل گئی ہے‘ محترم راشد نسیم اور پیارے ہم دم دوست مہربان اظہر اقبال حسن بھی ان دنوں کرونا کا شکار ہیں اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ دے‘ عزیز طلیف سے کم و بیش چالیس سال سے پیار محبت کا تعلق رہا‘ بہت ہی نفیس انسان تھے‘ اللہ تعالی کی فرماں برداری کے ساتھ ایک بھرپور زندگی گزار کر اپنے رب‘ اپنے خالق و مالک‘ اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں‘ پورا یقین ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے‘ ان کے حق میں یہ گواہی دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے تابع فرمان اور اللہ کے بندوں کے ساتھ بہت ہی حسن سلوک روا رکھتے تھے‘ اسلامی جمیعت طلبہ سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں آئے اور جماعت اسلامی کے رکن بن گئے‘ جمیعت کی طرح وہاں بھی بہت سی ذمہ داریوں پر رہے‘عزیرلطیف 2013قومی اسمبلی کے حلقہ 157 سے جماعت اسلامی کے امیدوار بھی رہے ہیں‘ ایک متحرک سیاسی کارکن کے طور پر بے مثال کام کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں‘ پتا نہیں کیوں سب کی طرح میں بھی ان کے رخصت ہو جانے کی خبر پر یقین نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کوئی کہہ دے، یہ کسی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔بارگاہِ رسالت میں دعاگو ہوں کہ اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور تشنگان کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔
یہ کیا دستِ صبا کو کام سونپا ہے مثیت نے
چمن سے پھول چننا اور ویرانے میں رکھ دینا
اللہ تعالی سے خصوصی التجا اور دعاء ہے کہ ہمیں ان کا بہترین نعم البدل عطاء کرے‘ زمانہ طالب علمی میں زرعی یونیورسٹی میں جب وہ زیر تعلیم تھے تو اس وقت ڈاکٹر غلام رسول‘ اختررسول اولپمئین کے والد یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے‘ یہ بہت ہی ہنگامہ خیز دور تھا‘ یونیورسٹی انتطامیہ کی سختیاں اپنی جگہ‘ اس کی جانب داری جمیعت کے لیے بڑی اذیت ناک تھی‘ دوسری جانب اسلحہ بردار گروہ انقلابی کونسل‘ پاکستان کو جب تاریخ میں پہلی بار ایف سولہ طیارے ملے تو جمیعت نے بڑا جشن منایا‘ ایک پروگرام کیا‘ محترم لیاقت بلوچ مہمان خصوصی تھے‘ اس پروگرام کے خلاف انقلابی کونسل نے رد عمل دکھایا اور اسلحہ بردار گروہ جمیعت پر چڑھ دوڑا‘ اکرام گورائیہ اسی تصادم میں شہید ہوئے تھے‘ شہید کی تدفین کے لیے عزیزلطیف کے ساتھ بہاول پور جانے کا بھی موقع ملا‘ پورے سفر میں عزیز لطیف گم سم رہے جیسے ان کے جسم کا کوئی حصہ کسی نے کاٹ پھینکا ہو‘ عزیز لطیف واقعی بہت بہادر اور عظیم دوست تھے ان دنوں یونیورسٹی کا ماحول بہت تلخ ہواکرتا تھا مگر ان کی زبان سے کبھی کسی نے مخالفین کے لیے کلمہ بد نہیں سنا مگر وہ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم‘ اپنے ساتیوں کے لیے وہ ریشم تھے مگر جو حق کے خلاف کھڑا ہوا اس کے لیے وہ فولاد تھے باالکل علامہ اقبال کے مومن کی طرح وہ جرائت کی عملی تصویر تھے‘ مجھے ان کے بچوں سے تعزیت کرنی ہے‘ انہیں حوصلہ بھی دینا ہے کہ وہ ایک عظیم والد کی اولاد ہیں اولاد کے لیے ماں کا آنچل‘ باپ کی شفقت کوئی دوسرا نہیں دے سکتا‘ جسے زیست کی تلخیوں کی کرخت و جھلسا دینے والی آندھیاں بکھیر کے رکھ دیتی ہیں‘ ہمیں یقن ہے کہ وہ جنت میں اس وقت یقیناً رحمتوں کے ایک محفوظ حصار میں ہوں گے زندگی بھر وہ اپنے والدین کی خدمت کرتے رہے اور دنیا میں بھی رحمتوں بھری چادر ان کے کندھے پر رہی انہیں الوداع کہتے ہوئے دل بوجھل ہورہا ہے
پنجابی کے مشہور صوفی شاعر ”میاں محمد بخش” کی لکھی سیف الملوک کا ایک بہت ہی خوبصورت شہر میں یہاں ضرور پیش کرنا چاہوں گا وہ کیا فرماتے ہیں
”باپ سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ”
میاں محمد بخش کا کلام ہے”باپ مرے تے سر ننگا ہووے‘ تے ویر مرن تے کنڈ خالی‘ ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی“ عزیر لطیف ہمارے ویر تھے وہ اپنی ذات میں انجمن تھے‘ وہ دوستوں کے بھائی بھی تھے‘ باپ بھی تھے‘
میرے ایک بہترین دوست‘ بھائی غم خوار‘ جماعت اسلامی اسلام آباد کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ میاں رمضان بھی حال ہی میں کرونا سے صحت یاب ہوکر ہسپتال سے گھر منقتل ہوگئے ہیں‘ اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ عطاء کرے‘ انہیں عزیز لطیف کے انتقال کی اطلاع قبلہ راشد نسیم نے دی‘ اس وقت وہ جناب نسیم صدیقی کے جنازے میں شرکت کے لیے جارہے تھے‘ غالبا واپسی پر انہیں بھی کرونا کی شکائت ہوئی‘ اللہ انہیں اور اظہر اقبال حسن اور دیگر تمام دوست جو بیمار ہیں‘ انہیں صحت کاملہ دے‘ یہ بات سچ ہے کہ بیماروں کا حال صرف بیمار ہی جانتا ہے یا تیمار دار‘
