نیشنل بینک کے ریٹائرڈ ملازم اور فیڈریشن آف یونین کے جنرل سیکرٹری سید جہانگیر نے بینک میں غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 3179 دائر کر دی ہے۔
ایک ہزار صفحات سے زائد ضخیم درخواست میں سید جہانگیر نے صدر بینک کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انکے اقدامات کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی۔ اس پٹیشن میں نیب کو بھی شکایت کرنے کے باوجود کارروائی نہ کرنے پر فریق بنایا گیا ہے ۔
درخواست گزار کے مطابق بینک میں کی گئی 17 بھرتیوں میں سٹاف سروس رولز، ریکروٹمنٹ پالیسی اور دیئے گئے اشتہارات کی خلاف ورزی کی گئی۔ سید جہانگیر کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2018 کے فیصلے کے بعد کنٹریکٹ پر ملازمت دینے کا حق نہیں تھا۔
درخواست گزار کے مطابق اعلی عہدوں پر غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں جس سے ادارے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ سید جہانگیر کے مطابق ان اسامیوں کا اجراء بھی غیر قانونی تھا اور تمام بھرتیاں مرضی کے بنائے گئے اشتہارات میں موجود تجربے کے مطابق بھی نہیں کی گئیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ اسماء شیخ کے لئے تعلیمی قابلیت کو کم کیا گیا اور ان کو سروس رولز، ریکروٹمنٹ پالیسی اور پروڈینشل ریگولیشنز کے فٹ اور پراپر ٹیسٹ کی تعلیمی اہلیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رکھا گیا۔
سید جہانگیر کے مطابق دیگر بے ظابطگیوں کے علاوہ گروپ چیف سعد الرحمن اور امین مانجی کے پاس دیئے گئے اشتہارات کے مطابق تجربہ نہیں تھا مذید براں مہناز سالار نے اپنی درخواست میں سابقہ تجربے کے بارے میں غلط بیانی کی اور عدنان آغا کو منیلا میں رہتے ہوئے مسلسل رولز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔
درخواست گزار کے مطابق اعلی عہدوں پر کم قابلیت رکھنے والوں کو تعینات کیا گیا۔ ایک کار رینٹل کمپنی میں چار سال تجربے کے حامل دانش کو ایس وی پی رکھا گیا اور 10 سالہ تجربے کے حامل کلیم کو دانش سمیت اپائنٹمنٹ لیٹر میں ای وی پی کرنے کا قانون کے بر خلاف وعدہ کیا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق ایک پرائیویٹ کوریئر کمپنی اور سٹی بینک سے نکلے ہوئے ملازمین کو بھاری مراعات کے ساتھ بینک میں رکھا گیا اور بینک کے زائد اہلیت کے حامل افسران کو نذر انداز کیا گیا۔ پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بورڈ نے بینک کے کسی موجودہ افسر کا انٹرویو نہیں لیا جبکہ سلیکشن کمیٹی نے امیدواروں کو اہلیت کے نمبر دیئے تھے۔
سید جہانگیر نے 17 بھرتیوں میں انفرادی طور پر بے ظابطگیوں کو اجاگر کرتے ہوئے مطلوبہ ثبوت لف کئے اور عدالت سے انہیں غیر قانونی قرار دینے کی اور مراعات کی واپسی کی استدعا کی۔ کیس کا فیصلہ ہونے تک افسران کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔
عدالت نے پٹیشن داخل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے اور فریقین کے مقررہ وقت میں جواب کے بعد کیس کو سماعت کے لئے مقرر کرنے کا حکم دیا۔