نائیجر میں ہونے والی آگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی ) میں ایک قرار دا د منظور کی گئی جس میں بھارت کی طرف سے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370اور 35-Aکی تنسیخ کی شدید مذمت کی گئی۔ یہ دونوں آرٹیکل کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے منسوخ کئے گئے ہیں ۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت جو بھارتی آئین اسے دیتا ہے اس کے مطابق کوئی بھی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا ۔ کونسل آف فارن منسٹر ز(CFM)کے نائیجر میں ہونے والے 47ویں اجلاس میں پاس کی جانے والی قرار داد میں کشمیر کے معاملے پر کشمیریوں کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا اور بھارت کی طرف سے 15اگست 2019کو کئے گئے غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کو مسترد کیا گیا ۔ اس کانفرنس کے منعقد ہونے سے ہفتوں پہلے بھارت کی پراپیگنڈہ مشین حرکت میں آگئی اور یہ مشہور کردیا گیا کہ مسئلہ کشمیر او آئی سی کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے ۔ یہ بھی مشہور کر دیا گیا کہ بھارت کی ناراضگی کا خطرہ مول نہ لیتے ہوئے اسلامی ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اس اجلاس میں زیر بحث نہ لایا جائے لیکن حقیقت اس کے بر عکس نکلی ۔ بھارت نے یہ پراپیگنڈہ مہم پاکستان اور اسلامی ممالک کو بدنام کرنے کیلئے چلائی تھی ۔ اس پراپیگنڈہ مہم کا نوٹس لیتے ہو ئے پاکستان نے کونسل آف فارن منسٹر کے اجلاس سے پہلے او آئی سی کے کانٹیکٹ گروپ سے رابطہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وزرائے خارجہ کی ویڈیولنک کے ذریعے ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جائے جس میں کشمیر کی دن بدن خراب ہوتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا جائے ۔ کانٹیکٹ گروپ کے ممبران جن میں آذر بائیجان ، نائیجر ، سعودی عرب ، ترکی اور او آئی سی انڈی پنڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن (IPHRC)کے نمائیدے شامل تھے سب نے اس تجویز کی حمایت کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اس وقت بلایا گیا جب بھارت کی قابض فوج نے کشمیر میں اپنا آپریشن تیز کیا ہوا ہے جس میں خصوصی طور پر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بھارت نے کرونا وائرس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کرفیو اور لاک ڈائون میں مزید سختیاں پیدا کر دی ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لے ۔ اسی کرفیو اور لاک ڈائون کی آڑ لیتے ہوئے غیر کشمیر ی لوگوں اور ہندوئوں کو باہر سے لاکر کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے ۔ انہیں ڈومیسائل دئیے جا رہے ہیں تاکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے ۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے او آئی سی کے اس اجلاس کے بلائے جانے اور اسمیں پاس کی جانے والی کشمیریوں کی حمایت میں قرار داد کو پاکستان کی سفارتی فتح قرار دیا ہے۔ پاکستان نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ بھارت کشمیر میں کیا کیا مظالم ڈھا رہا ہے ۔ اس اجلاس میں پاس کی جانے والی قراردار میں بڑے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی ممالک نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں غیر قانونی طور پر جاری کئے گئے ڈومیسائل منسوخ کئے جائیں ۔ یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات جن میں جموں کشمیر آرگنائزیشن آرڈر 2020، جموں کشمیر لینگوئج بل2020اور زمین کی وراثت سے متعلق قوانین میں ترمیم کو واپس لیا جائے جس کے تحت کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں اسلامی ممالک نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کر ے جس سے متنازعہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو۔ اسلامی ممالک نے کشمیرمیں کی جانے والی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی شدید مذمت کی اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ علاقے سے اپنی فوج اور پولیس کو واپس بلائے۔ او آئی سی نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بھارتی فوج کے ہا تھوں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم خصوصی طور پر ماورائے عدالت قتل وغارت گری اور جعلی پولیس مقابلوں میں کشمیریوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وادی میں گھر گھر تلاشی کے نام پر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے ، گھروں کو مسمار کرنے اور انسانیت کے خلاف مظالم کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں او آئی سی کے 25ستمبر2019اور 22جون 2020کے اجلاسوں میں جاری کئے جانے والے اعلامیوں کو بھی دہرایا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی پر زور مذمت کی گئی تھی۔ حالیہ قرار داد میں او آئی سی ممالک نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اوآئی سی کے خصوصی نمائیندوں اوراو آئی سی کے فیکٹ فائینڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے تا کہ وہ وہاں کے حالات کا بذات خود جائزہ لیکر اندازہ کر سکیںکہ حقیقت کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی برادری کو نہ صرف اپنی طرف کے کشمیر میں جانے کی اجازت دی ہے بلکہ خود بین الاقوامی برادری کو کشمیر کا دورہ کروایا ہے تا کہ سچ اور جھوٹ کا پتہ چل سکے جب کہ بھارت نے کبھی بھی دوسرے ممالک کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی۔ اسلامی ممالک نے بھارت سے مطالبہ کیا کو اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کی مرتب کر دہ دو رپورٹوں پر عمل کرے اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لیں جس نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قرار داروں اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ نائیجر میں ہونے والے اوآئی سی اجلاس نے ایک دفعہ بھر ثابت کر دیا ہے کہ اسلامی ممالک کیلئے مسئلہ کشمیر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ممالک جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اصل جھگڑا صرف کشمیر کا ہی ہے جسے حل کئے بغیر جنوب ایشیاء میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اجلاس کے اعلامئیے میں یہ بھی کہا گیا کہ کشمیری عوام اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہیں اور کشمیر پر کسی قسم کے مذاکرات میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کر نے کا پورا اختیار ہے۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر گزشتہ 72سال مسئلہ کشمیر سے موجود ہے جسکا فوری طور پر کوئی حل نکلنا چاہیئے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بین الاقوامی برادری بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے جس کی وجہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں پیش کیا جانے والا وہ ڈوزئیر ہے جسمیں بھارت کی پاکستان اور کشمیر میں مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کئے گئے ہیں۔
