وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نو مارچ 1951 کو جاری کیا جس میں مشہورِ زمانہ راولپنڈی سازش کیس کا ذکر تھا اس سازش کے الزام میں افسران کی گرفتاری ہوئی، ان پر ایک خصوصی عدالت کے ’بند کمرے‘ میں مقدمہ چلا اور جس کی کارروائی آج تک خفیہ رکھی گئی ہے۔
مقدمے کے دوران بھی کارروائی کی تفصیل تحریری طور پر ملوث افسران کو بھی فراہم نہیں کی گئی۔ حیدرآباد کے مرکزی جیل میں مقدمے کی سماعت 1951 سے 1954 تک تین ججوں نے کی اور فیصلہ دیا۔
جن افسران کو حراست میں لیا گیا میجر جنرل اکبر خان کو ان کا مبینہ سرغنہ بتایا گیا۔ اکبر خان کے مطابق ان کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ ملک میں فوری طور آئین اور مسئلۂ کشمیر کا حل چاہتے تھے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اعلان میں صورت حال کچھ یوں بیان کی گئی: ’حکومت کو ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہوا چنانچہ اس سازش کے سرغنوں کی گرفتاری آج ہی عمل میں آئی ہے۔ یہ ہیں، افواج پاکستان کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل اکبر خان، بریگیڈیئر کمانڈر متعین کوئٹہ بریگیڈ ایم اے لطیف، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور میجر جنرل اکبر خان کی بیگم مسز اکبر خان۔
’سازش میں ملوث دونوں فوجی افسروں کو ملازمت سے فوری طور پر برخاست کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ سازش کی جڑیں مستحکم ہوتیں، یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس کا علم ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بارے میں سن کر جس طرح مجھے ازحد صدمہ ہوا ہے، اسی طرح عوام کو بھی شدید رنج ہو گا۔
’عوامی معاملات کی اس نزاکت کو پوری طرح محسوس کریں گے کہ قومی سلامتی کے اسباب کی بنا پر میرے لیے اس سازش میں ملوث لوگوں کے بارے میں تفصیلات کا سر عام اعلان کرنا ممکن نہیں۔ میرے لیے محض اس قدر بتا دینا کافی ہو گا کہ یہ لوگ اگر کامیاب ہو جاتے تو ان کی کارستانی کی ضرب براہ راست ہمارے وجود کی بنیادوں پر پڑتی اور پاکستان کو استحکام معرض خطر میں ہوتامیں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع ہونے کی بنا پر ہر دو حیثیتوں سے میرے فرائض صاف عیاں ہیں
یہ پورا بیان کیپٹن ظفر اللہ پوشنی کی کتاب میں نقل کیا گیا ہے۔ پوشنی بھی سازش کیس کے ایک ملزم تھے جنہیں 15 مئی 1951 کو حراست میں لیا گیا۔ وزیر اعظم کی تقریر سے قبل ہی میجر جنرل اکبر خان اور بعض دیگر فوجی افسران اور غیر فوجی افراد حراست میں لے لیے گئے تھے۔
میجر جنرل اکبر خان کی تصنیف Raiders in Kashmir میں انہوں نے لکھا کہ ’دسمبر 1950 میں مجھے ترقی دے کر جنرل بنا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی جنرل ہیڈ کوارٹرز، راولپنڈی میں چیف آف دی جنرل سٹاف مقرر کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان اس وقت ڈپٹی کمانڈر ان چیف تھے اور چند ہفتوں کے بعد ان کا تقرر بطور کمانڈر ان چیف ہونے والا تھا۔
’میں نے یہ بات پوری صفائی کے ساتھ ان کے گوش گزار کر دی تھی کہ کشمیر کے سوال پر حکومت سے میرے اختلاف آرا کی بنا پر جو کہ سب کو معلوم ہے نہ تو میری ترقی مناسب ہے اور نہ چیف آف جنرل سٹاف کے طور پر میرا تقرر قرین مصلحت ہے۔ جنرل ایوب خان نے جواب دیا میں نے حکومت سے آپ کو خود ہی مانگا ہے اس لیے یہ تقرری آپ کو منظور کر لینا چاہیے۔
’اب میرے لیے بظاہر کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا تھا، اگرچہ دو باتوں کے بارے میں مجھے کامل یقین تھا، اول یہ کہ ہر ایک مہینے جو گزرتا تھا اس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ کشمیر کے تابوت میں ایک کیل اور ٹھونکی گئی اور دوسرے یہ کہ نہ تو جنرل ایوب خان کا اور نہ حکومت کا اس صورت حال کو روکنے کا کوئی ارادہ تھا۔
’22 فروری 1951 کو میرے مکان پر وہ آخری میٹنگ ہوئی جسے میں پنڈی سازش کو نام دیا گیا۔ اس میٹنگ میں چند دوسرے لوگوں کے علاوہ پاکستان ٹائمز کے فیض احمد فیض اور محمد حسین عطا بھی شامل تھے۔ سات گھنٹے کے غور و خوض کے بعد میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ قبل ازیں جس اقدام کی تجوید پیش ہوئی تھی اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
’میں نے اجلاس میں جو تجویز پیش کی تھی اس کا حاصل یہ تھا کہ کشمیر میں کسی طرح کی کارروائی کرنے سے پہلے پاکستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کی ضرورت ہے جو ہماری پشت پناہ ہو، گورنر جنرل کی جانب سے مجوزہ اعلان کا مسودہ جو میرے ہاتھ کا تحریر کردہ ہے راولپنڈی سازش کیس کی یادداشتوں میں اب تک محفوظ ہے۔
’اس اعلان کے خاص نکات یہ تھے کہ پرانی حکومت برخاست کر دی جائے گی اور اس کی جگہ ایک نگراں سول حکومت قائم کر دی جائے گی، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کی تاریخ مقرر ہو گی، آئین مرتب کرنے کے لیے ایک آئین ساز اسمبلی بنائی جائے گی، فوج کی غیرجانبدار مشنری استعمال کر کے انتخابات کے یکسر غیر جانبدار ہونے کی ضمانت دی جائے گی اور تمام جنرلوں پر مشتمل ایک مشاورتی فوجی کونسل قائم کی جائے گی۔
’یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ میری ان تجاویز میں سے کوئی ایک بات بھی ان کارروائیوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی تھی جو بعد میں ایوب خان نے انجام دیں۔ انہوں نے دو بار آئین منسوخ کیا جبکہ اس اعلان سے ایک جمہوری آئین وجود میں آتا ہے۔ ملک میں انہوں نے دو بار مارشل لا نافذ کیا جبکہ اس موقع پر عام شہری قوانین میں مداخلت کا دور دور تک کوئی ارادہ نہ تھا۔ انہوں نے دو بار اس ملک میں آمریت نافذ کی جبکہ یہاں یہ ارادہ تھا کہ آئین سے گریز کا رجحان جس میں آمریت کا خطرہ پیدا ہوتا تھا ختم کر دیا جائے۔
’اس وقت اس معاملے میں بہت کچھ کہا گیا اور جب سے اب تک بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے کہ ہم نے اگر یہ کارروائی کی تو بہت سے لوگوں کو ہلاک کر دیا جاتا اور معلوم نہیں کیا کچھ ہوتا لیکن یہ سب باتیں قطعاً غلط ہیں۔ مقدمہ سازش میں استغاثہ کے اپنے گواہوں نے اور سلطانی گواہوں نے بھی عدالت کے سوالوں کے جواب میں یہ شہادت دی کہ کسی شخص کو گولی مار نے کا کوئی ارادہ نہ تھا بلکہ دراصل کوئی فرد گرفتار بھی نہ ہوتا۔
’ٹریبونل کے جسٹس عبدالرحمن بہت حیران ہوئے جب انہیں مختلف سوالوں کے یہ جواب ملے کہ میں نے بندوقوں کو کارتوس سے خالی رکھنے کی ہدایت کی تھی اور یہ کہ ایک فرد بھی میری رائے میں گرفتاری کے لائق نہیں تھا۔
’اس کے باوجود کہ یہ حقائق ہر شخص کو بخوبی معلوم تھے لیکن بہت سے لوگ اب تک یہ دعوے کرتے آئے ہیں کہ ہمیں ہلاک یا گرفتار کیا جانے والا تھا، اس کا مقصد یہی تھا کہ یہ لوگ حکومت کی نظر میں مقبول اور اس کے محبوب بن جائیں۔ میرے خیال کی رو سے 23 تاریخ کے فیصلے کے بعد سارا معاملہ ختم ہو گیا اور اب میرے لیے کچھ اور کرنا باقی نہیں رہ گیا تھا۔
’میں نے یہ تو نہیں سوچا کہ جو کچھ اب تک ہو چکا ہے حکومت کو اس کی خبر نہیں ہوگی، البتہ میں اس کارروائی سے بے خبر تھا جو میرے خلاف شروع کی جاچکی تھی۔ پنجاب میں انتخابات سے عین ایک روز پہلے نو مارچ 1951 کی صبح کو ہمیں گرفتار کر لینے کا منصوبہ تیار کیا جاچکا تھا۔
’جس صبح گرفتاریاں ہونے والی تھیں اس سے پہلے رات میں لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ جنہیں بعد میں سلطانی گواہ بننا تھا اور جو اپنی رپورٹ جنرل ایوب خان کو پہلے ہی پہنچا چکے تھے، یہ اطلاع دینے کے لیے میرے پاس آئے کہ آپ کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے اور اس سلسلے میں زبردست افواہیں پھیل چکی ہیں۔ انہیں میری حفاظت کے سلسلے میں بظاہر بڑی تشویش تھی، لہٰذا انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ کو حفاظتی تدبیر کر لینی چاہیے۔
’میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ میں اپنے اعمال کی تمام تر ذمہ داری قبول کروں گا اور اس کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ میں یہ امید کر رہا تھا کہ میرے خلاف اگر کوئی کارروائی کی گئی تو وہ یقینا قانون کے مطابق ہو گی، یعنی یہ کہ اس سلسلے میں متعلقہ افسر کو مکان میں نظربند کر دیا جاتا ہے اسے کمانڈر ان چیف کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اس پر فرد جرم عائد ہوتی ہے اس کے بعد تحقیقات ہوتی ہے اور تب کورٹ مارشل ہوتا ہے، اگر یہ بات تھی تو میرا ارادہ کسی بات کو چھپانے کا نہیں تھا۔
’یہی وجہ ہے کہ میں نے کاغذات میں سے ایک بھی کاغذ خطوط اور دستاویز وغیرہ تلف نہیں کیں اور اس لیے آخری رات میں بھی جبکہ دو مختلف ذرائع سے مجھے خبردار کیا جاچکا تھا، میں نہایت اطمینان سے سویا۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میرے معاملے میں کسی بھی قانونی ضابطے کی پابندی نہیں کی جائے گی،
میں رات کو گہری نیند سو رہا تھا کہ کوئی سو آدمیوں نے میرے مکان کو گھیرے میں لے لیا اور میرے چوکیدار کو فاتحانہ طور پر دبوچ لیا۔ صبح کے چھ بجے میجر جنرل ضیاء الدین نے میری خواب گاہ کی کھڑی پر دستک دی اور کہا کہ ایک نہایت اہم معاملے میں مجھے آپ سے فوراً ملنا ہے۔ یہ سننا تھا کہ میں ان سے ملنے کے لیے جوتا پہنے بغیر ننگے پاؤں بے اختیار باہر نکل پڑا۔ جوں ہی میں باہر نکلا سنگینیں اور سٹین گنیں تانے ہوئے لوگ سامنے اور دائیں بائیں غرض تین طرف سے مجھ پر جھپٹ پڑے
’اس واقعے کے خاصے عرصے بعد مقدمے کے دوران استغاثہ کے وکیل مسٹر اے کے بروہی حکومت کی توجہ اس طرف یہ اصرار دلاتے اور بار بار کہتے رہے کہ میرے سرہانے جو ریوالور پایا گیا تھا اس میں گولیاں بھری ہوئی تھیں۔
’اس لطیفے کی شانِ نزول یہ ہے کہ جنرل ایوب خان کے یقین کے مطابق دو ڈویژن فوجیں میری حمایت کے لیے ایک آواز کی منتظر کھڑی تھیں۔ یہ دو ڈویژن فوجیں کہاں تھیں یہ بات کسی کو معلوم نہیں تھی۔ ظاہر ہے افواج پاکستان کے درمیان تو ان کا وجود نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بریگیڈیئر حبیب اللہ اور لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ سے انہیں اس کی اطلاع مل چکی ہوتی پھر یہ بھی حکومت ہے کہ وہ پہلے ہی تمام ڈویژنل کمانڈروں سے رابطہ پیدا کر چکے تھے۔
’اتنی بھاری بھر کم فوج جس میں کوئی 30 ہزار جوان شامل تھے ظاہر ہے کہ میرے مکان کے اندر یا کہیں اس کے آس پاس کامیابی سے تو نہیں چھپ سکتی تھی کہ اس کی موجودگی کی کسی کو ایک جھلک بھی نہ ملے، یہ بات قیاس میں نہیں آتی تاہم یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آدمی کے پرواز تخیل اسے کہاں تک لے جاسکتی ہے پھر ایک ایسا شخص جو ہمالیہ کے اس پار روسیوں کی پیش قدمی کو بھانپ سکتا تھا اسے تو یہ بات بالکل ہی بےسروپا نظر آنی چاہیے تھی۔‘
سازش کیا تھی؟
بات دراصل یہ تھی کہ میں خود فوج کے افسران میں زیادہ مقبول تھا اور وہ میری طرف ہی دیکھتے تھے اور میرے خیالات کی پیروی کرتے تھے۔ حکومت کے ساتھ ہمارے خیالات میں ہم آہنگی نہیں تھی۔ میجر جنرل نذیر احمد جو مجھ سے سینیئر تھے وہ بھی اس سازش میں ہمارے ساتھ شامل تھے اور انہیں خیالات کے حامی تھے جو ہمارے تھے۔
ہم نے کوئی میٹنگ وغیرہ نہیں کی تھی جس میں مستقبل کے سلسلے میں کوئی بحث و مباحثہ کیا گیا ہو۔ لوگوں نے عام طور سے مجھ کو میری حمایت کا یقین دلایا تھا۔ میرے خیال میں 60، 50 افسران ہمارے ساتھ تھے جس میں سے حکومت نے 15 کو گرفتار کر لیا اور ان پر مقدمہ بھی چلایا۔
فیض احمد فیض اور سجاد احمد ظہیر جیسے لوگ بھی ہمارے ساتھ گرفتار ہوئے تھے یہ تو اپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ لوگ کم از کم مارشل کے حامی نہیں تھے