چھوٹی مارکیٹوں کے دکان داروں کے مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟

اسلام آباد جب بسایا جارہا تھا تو بہت سے خواہب ذہنوں میں تھے، جن کی تکمیل کی جانی تھی، مگر وقت گزرتا رہا اور خواب بکھرتے رہے، ایک وقت تھا کہ اسلام آباد انتہائی خوبصورت، محفوظ اور صاف ستھرا شہر تھا، قانون کی مکمل پاس داری تھی، جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی، صفائی اس قدر کہ شہر میں آوارہ کتے کہیں نظر نہیں آتے تھے
مگر ……آج یہ سب کچھ سوالیہ نشان ہے
یہ بات درست ہے کہ شہر جکی آبادی بڑھی تو مسائل میں بھی اضافہ ہوا مگر سچ یہ ہے کہ مسائل اس لیے بڑھ رہے ہیں کہ انتظامی اداروں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں
اسی لیے شہر میں جگہ جگہ گاڑیاں دھونے کے لیے غیر قانونی سروس اسٹیشز بنے ہوئے ہیں،
ایک مافیا ہے جس نے پینے کے پانی کے پائپ توڑ کر یا وال کھول کر ان پائپس سے پانی حاصل کرنے کا دھندہ اپنایا ہوا ہے اور شہری آبادیوں کے لوگ پینے کے پانی کی کمی کا شکار ہیں، بلکہ کئی بار شہریوں کی جانب سے احتجاج بھی دیکھنے کو ملا
اسلام آباد کم از کم ایک ایک ایسا شہر جہاں پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں یہاں خواندگی کی شرح سو فیصد بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کے باوجود دیکھا گیا کہ گھروں کی صفائی کرکے کوڑا باہر پھینک دیا جاتا ہے، اوور فلو ہوجانے سے واٹر ٹینکیوں سے پانی بہتا رہتا ہے،
پارکس میں فیملیز سکون کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتی ہیں
گلی گلی خوانچہ فروش اشیاء فروخت کرتے رہتے ہیں
اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز ایک ایسا فورم جہاں سے شہر کے چھوٹے تاجروں کے مفادات کا تحفظ ہونا لازمی ہے مگر جب گلی گلی خوانچہ فروش پھل، سبزیاں اور دیگر اشیاء فروخت کرتے رہیں گے، فت پاتھوں پر دکانیں سی سجائے بیٹھے رہیں گے تو چھوٹے دکانداروں کے معاشی کامفاد کا کون خیال رکھ پائے گا، فٹ پاتھوں پر دکانیں سجائے اور گلی گلی پھیرے لگانے والے دوسرے شہروں سے آتے ہیں دو چار گھنٹے میں مال بیچ کر نکل جاتے ہیں، مارکیٹوں میں بیٹھے دکان دار شام تک گاہک کے انتظار میں رہتے ہیں، ایک تماشہ یہ بھی ہے کہ سرکاری گھروں میں بھی دکانیں بنی ہوئی ہیں، سی ڈی اے ہسپتال کے قریب کی آبادی اس کی ایک مثال ہے
چھوٹی مارکیٹوں کے دکان داروں کے مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟