بااثر شوگر ملز مالکان کے چینی کی مبینہ سٹے بازی میں ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ایف آئی اے کے مطابق چینی کے سیکٹر میں ایک بہت ہی منظم سٹہ مافیا دھوکے اور جعل سازی سے چینی کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر اوپر لے جا رہا تھا۔ پچھلے سال کے آغاز میں جب چینی کی قیمت 69.50 سے 100 روپے تک پہنچی تو حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے شوگر کمیشن بنایا تھا۔ گذشتہ سال تقریباً ساڑھے پانچ ارب کلو چینی استعمال ہوئی اور سٹہ مافیا میں ملوث لوگوں نے اس سے تقریباً 110 ارب روپے کی ناجائز کمائی کی۔ اس وقت دس مقدمے درج کیے گئے ہیں، ویسے تو سٹہ مافیا آپس میں جڑا ہوا ہے لیکن ان کے آگے دس مزید گروپس ہیں اور انہی گروپس کے حساب سے ان پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔گروپس کے خلاف ثبوت ان سب کی آپس کی واٹس ایپ پر ہونے والی پیغام رسانی ہے، جس کا تمام ریکارڈ ایف آئی اے کے پاس موجود ہے۔ایف آئی اے کے ترجمان ذیشان ملک نے بتایا کہ سٹے کے ذریعے مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھایا جاتا ہے جس سے شوگر مافیا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔سٹے باز کام کیسے کام کرتے ہیں؟ ذیشان ملک نے بتایا کہ سٹے باز، جن میں شوگر ملز مالکان کے ایجنٹ اور بازار میں بیٹھے بڑے منافع خور دونوں شامل ہوتے ہیں، اس سٹے بازی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انہوں نے مثال دے کر بتایا کہ اگر جنوری میں چینی کی فی بوری قیمت پانچ ہزار روپے ہے تو سٹے باز اپریل کے لیے چینی کی قیمت سات ہزار روپے فی بوری پہلے سے ہی مقرر کر لیتے ہیں۔پھر وہ مارکیٹ میں تاجروں سے کہتے ہیں کہ اپریل میں چینی کی فی بوری قیمت سات ہزار روپے سے زیادہ ہو گی لہٰذا وہ جنوری میں ہی سات ہزار روپے فی بوری کے حساب سے پیشگی بکنگ کروا لیں۔انہوں نے کہا یوں ملک میں پیدا ہونے والی تمام چینی کی قیمت تین ماہ پہلے ہی متعین کر لی جاتی ہے، جس کا مقصد زیادہ اور ناجائز منافع کمانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جس قسم کا کیپٹلزم پایا جاتا ہے یہاں پر منافع خوروں کے لیے بہت سے مواقع ہیں۔’شوگر مافیا کارٹلز بنا کر کام کرتے ہیں۔ ہر طرف سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ ایک یہ مارکیٹ کی قیمت سے اضافی قیمتیں وصول کرتے ہیں، پھر جو حکومتی سبسڈی صارف کو ملنی چاہیے وہ بھی شوگر ملز مالکان کو دی جاتی ہے۔ ایسے سکینڈل پہلے بھی آچکے ہیں۔‘تیسری بات یہ ہے کہ یہ (ملز مالکان) گنے کے کاشت کاروں کو لمبے عرصے تک پیسے نہیں دیتے تھے۔ اس سے بھی یہ منافع کماتے تھے۔ اس کے علاوہ بینک شوگر ملز کو ان کے سٹاک پر قرضہ دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سٹاک بھی وہ ہوتا ہے جو پہلے سے بک چکا ہوتا ہے۔‘ یہ کارٹل بنا کر کئی مہینے پہلے ہی چینی کی قیمت فکس کر دیتے ہیں، جسے ’سپیکیولیٹیو ٹرانزیکشن‘ کہتے ہیں۔ مثلا آج کا سپاٹ ریٹ آج کا ہے لیکن آج سے تین ماہ بعد کا ریٹ یہ فکس کریں گے جسے سپیکیولیٹیوو ریٹ کہتے ہیں اور اسی کی ذریعے مستقبل کے سٹاک بیچ کر یہ سپیکیلیٹیوو ٹرانزیکشن کروا لیتے ہیں، یہی سٹہ کہلاتا ہے جو غیر قانونی ہے۔ ماضی میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ جتنے شوگر ملز مالکان ہیں وہ سیاست دان یا بااثر لوگ ہیں۔ حکام ان پر ہاتھ ڈالنے سے گھبراتے ہیں
ایف آئی اے نے جن لوگوں کو طلب کیا ہے مجھے شک ہے کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن ہوگا البتہ ہو سکتا ہے کہ ان کے فرنٹ مین وغیرہ کو کوئی سزا دے دی جائے۔‘ ایف آئی نے شوگر ملز مالکان کو اپنے لاہور آفس طلبی کے نوٹس جاری کیے تھے۔ انہیں یکم نومبر، 2020 سے بیچے گئے سٹاک کا ریکارڈ ہمراہ لانے کا حکم دیا گیا ہے۔انہیں یکم نومبر، 2020 سے ایف بی آر میں ڈکلیئرڈ شوگر فروخت کا ریکارڈ اور اسی تاریخ سے اپنے تمام کارپوریٹ بینک اکاؤنٹس اور بے نامی اکاؤنٹس کی فہرست بھی ساتھ لانی ہوگی۔
اس کے علاوہ شوگر ملز حکام کو یکم نومبر، 2020 سے اندرون و بیرون ملک کی تمام ٹی ٹیوں کی تفصیل ہمراہ لانی ہو گی اور عدم حاضری اور عدم تعاون کی صورت میں گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
چوہدری شوگر ملز (مریم نواز) کو 31 مارچ کو طلب کیا گیا مگر وہ یا ان کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا۔ اسی طرح رحیم یار خان شوگر گروپ (مونس الہی) یکم اپریل، رمضان شوگر ملز (حمزہ شہباز) اور JDW شوگر ملز (جہانگیر ترین گروپ ) دو اپریل، المعیز شوگر ملز (نعمان شمیم خان ) پانچ اپریل، مدینہ شوگر ملز (میاں رشید/ میاں حنیف ) سات اپریل، حمزہ شوگر ملز (میاں طیب ) 08 اپریل جبکہ تاندلیانوالہ شوگر ملز (ہمائوں اختر ) کو 12 اپریل کو طلب کیا گیا ہے