ہم آپ کو بتاتے ہیں تو رپورٹ میں کیا بچ جاتا ہے

ایبٹ آباد کمشن……2011–2021
آج دو مئی ہے، آج سے کوئی دس سال قبل ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کے دوران امریکی دعوی کے مطابق اسامہ بن لادن مارے گئے، آپریشن میں شریک امریکی ان کی لاش اپنے ساتھ لے گئے، اس آپریشن نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے سامنے نہائت حساس سوال رکھ دیے کہ
پتہ چلایا جائے کہ آپریشن کی نوعیت کیا تھی
اسامہ بن لادن یہاں تھے یا نہیں
آپریشن کے بعد پارلیمنٹ کو اس واقعہ کی تفصیلات بتائی گئیں، حکومت نے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمشن تشکیل دیا جس نے دو سال کے بعد2013 میں اپنی رپورٹ دی، یہ رپورٹ ایک جوڈیشل انکوائری پیپر ہے جسے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں، 4 جنوری 2013 کو اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو پیش کیا گیارپورٹ میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے آس پاس کے حالات کی تفتیش کی گئی ہے وزیر اعظم نے رپورٹ کو فوری طور پر کلاسیفائیڈ کردی اور اس کے نتائج ابھی منظر عام پر نہیں لائے گئے رپورٹ میں 700 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 300 سے زائد گواہوں کے انٹرویو لینے اور 2 مئی کو القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو مارنے کے لئے امریکی اسپیشل آپریشن فورسز کے چھاپے سے متعلق 3،000 سے زائد دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد 200 کے قریب سفارشات درج کی گئیں امریکی یکطرفہ کارروائیوں کے جواب میں، حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں یہ معلوم کرنا تھا کہ واقعی کیا ہوا ہے اس رپورٹ کے کچھ حصوں نے میڈیکل ڈاکٹر، ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف مقدمے کی سماعت کی سفارش کی تھی جب رپورٹ پیش کی گئی تو جسٹس جاوید اقبال سے میڈیا نے سوال کیا کیا ایبٹ آباد میں کمپاؤنڈ میں ہلاک ہونے والا شخص اسامہ بن لادن تھا، جسٹس جاوید اقبال نے جواب دیا اگر ہم آپ کو بتاتے ہیں تو رپورٹ میں کیا بچ جاتا ہے