ملک کی قومی سیاست میں بے شمار انفرادی کردار ملتے ہیں، جن کی سوچ، فکر اور لائحہ عمل سیاسی جماعتوں پر بھاری ہوتا ہے، یہ کردار ہمیں تقریباً ہر سیاسی جماعت میں ملتے ہیں تاہم المیہ ہے کہ حاکم کے دربار میں سچ بولنے والے ان کرداروں کوہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جو لوگ سیاسی جماعتوں میں غیرت کا احساس دلاتے ہیں ایسے آزاد منش، کھرے لوگوں کی کے گرد دیواریں چن دی جاتی ہیں، پیپلزپارٹی کا منشور جے اے رحیم نے لکھا، مگر علم کی اس شائستگی کو گفتار کے غاذیوں نے پارٹی سے باہر نکلوایا، اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت بھی کسی سے کم نہیں نکلی، یہاں بھی تعزیروں کے رستے میں توقیر کے موتی رولے گئے ہیں، چوہدری نثار علی خان جیسی گلابوں کی مہکتی بستیاں ریت کے تپتے ہوئے صحراؤں کے حوالے کی گئیں، کیونکہ وہ مسلم لیگ(ن) میں ہوتے ہوئے زہر ہلاہل کو قند نہیں کہہ سکے، محترم راجا ظفر الحق کے لیے ممتاز ایٹمی سائنس دان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے الفاظ ہیں کہ سینیٹر راجا محمد ظفر الحق وکیل ختم نبوت ہیں، ہماری رائے میں چوہدری نثار علی خان خادم ختم نبوت ہیں، یہ دونوں شخصیات کا ہمارے دل میں بہت ادب اور احترام ہے، کبھی موقع ملے تو پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد کے خطیب ضرور دل کی گرہ کھولیں اور بتائیں کہ محض سیاسی فائدے کے لیے چوہدری نثار علی خان کے ایک حریف نے چوہدری صاحب کے حوالے سے ان سے کیا تقاضہ کیا تھا؟ خبر یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان، محترمہ نسیم ولی خان کے انتقال کر تعزیت کے لیے گئے، جناب ولی خان اور محترمہ نسیم ولی خان، دونوں اصولوں کی سیاست کے لہلہاتے چمن تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو ولی خان نے کہا کہ انہیں ایک ارب روپیہ دے دیا جائے تو سیاست کا رخ موڑ سکتے ہیں، شاید ان کے الفاظ یہ تھے کہ وہ پوری اسمبلی خرید سکتے ہیں، محترمہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جس طرح ناکام بنائی گئی یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے، ایک اخبر نویس کے لیے سیاست دان خبر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے، مگر اخبار نویس اور سیاست دان کی دوستی نہیں ہوسکتی، البتہ باہمی عزت، احترام کا تعلق ضرور رہنا چاہیے، اگر کوئی اخبار نویس کسی سیاست دان سے دوستی کا دعوی کرے تو غلط ہے کیونکہ ہم نے دوستی کے یہ چراغ جلتے ہوئے نہیں دیکھے،2000ء دسمبر کی بات ہے، شریف فیملی مجبوری کے ایک معاہدے کے نتیجے میں جدہ روانہ ہوئی، راولپنڈی میں ایک اخبار نویس شیخ رشید احمد کے طرف دار تھے، اور چاہتے تھے کہ انہیں 2002 کے عام انتخابات میں ٹکٹ ملنا چاہیے، مگر شیخ رشید احمد، اپنا ذہن بنائے بیٹھے تھے اور خود ایسا نہیں چاہتے تھے، تاہم میڈیا میں انہوں نے اپنے حق میں اس مہم کو خوب انجوائے کیا، اور آزاد حیثیت سے انتخاب جیت کر خاموشی کے ساتھ مسلم لیگ(ق) میں شامل ہوگئے، اور اپنے دوست اخبار نویس کو اپنے فیصلے کی ہوا تک نہیں لگنے دی، ابھی کل کی بات ہے، اسلام آباد میں جب نواز شریف کی وزارت عظمی کا قلعہ مسمار ہو رہا تھا اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت شہباز شریف کے ہاتھ میں جانے کے اشارے تھے تو راولپنڈی کے ایک سیاست دان نے یہ اسے اپنے لیے ایک اچھا موقع سمجھا وہ جانتے تھے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے تعلقات اچھے ہیں، سو انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کا فیصلہ کیا، اور ایک اخبار نویس کی خدمات لیں، یوں اپنی بے آب سیاسی زندگی کو گلزار بنانے کی کوشش کی، بہر حال بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے ان کے سیاسی افلاس کی پیاس بھجائی، مگر اب رت پھر بدل چکی ہے،
بات صرف یہ ہے کہ سیاست دان کو اپنا کام کرنا چاہیے اور اخبار نویس کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے، تب کہیں جاکر صحافت اور سیاست میں توازن پیدا ہوتا ہے، سیاست دان سے دوستی ہوجائے تو خبر کی قربانی دینا پڑتی ہے، سیاست دان سے کسی اخبار نویس کو تحفہ مل جائے تو قلم پر جبر کی مہر لگ جاتی ہے اور اسے جھک کر کوئی سلامی نہیں دیتا، پھر یہی توقع کی جاتی ہے کہ قلم خوشبو بکھیرے گا اور شاخ دل ہری رہے گی، ہاں مگر اگر کوئی قلم عہد غلامی سے آذاد رہے تو سرد آہوں سے بھی محفوظ رہتا ہے
ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم
دوستی بھی نبھائیں گے، عشق بھی کریں گے
اور خبر بھی دیں گے
چاہتے ہیں کہ عزت، باہمی ادب، احترام کا تعلق استوار ہو
میاں منیر احمد