یہ غالباً یکم جون 1984کی رات تھی، اور پہلا روزہ تھا، رات سوتے میں خواب دیکھا کہ ہماری رہائی ہوگئی ہے، صبح سحری کے لیے بیدار ہوا، سحری کی، اور نماز فجر کے بعد پھر سوگیا، کسی بھی ساتھی کے ساتھ اپنی خواب کا ذکر نہیں کیا، چھ جون کو دن گیارہ بجے ایک جیل آفیسر ہماری بیرک میں آیا اور اس نے میرا، سلطان اور غیور کا نام لیا، اور کہا کہ انہیں اس جیل سے کسی دوسری جیل منتقل کیا جارہا ہے، میرے ساتھ اس وقت وحید الزمان، خالد بسراء اور متین صاحب بھی جیل میں تھے، یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، ہم چھ طالب علم اس وقت طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف احتجاج، مظاہروں کے باعث گرفتار ہوئے اور خصوصی عدالت نے ہمیں ایک سال قید بامشقت سزا سنائی تھی، متین صاحب چونکہ سینیئر تھے اسی لیے انہوں نے جیل آفیسر سے تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی مگر انہیں کچھ نہیں بتایا گیا بس اتنا بتایا کہ چند روز تک انہیں بھی کسی دوسری جیل منتقل کردیا جائے گا، بہر حال ہم تینوں جیل آفیسر کے ساتھ بیرک سے باہر آئے وہ ہمیں جیل کی ڈیوڑھی میں لے آیا، جہاں ہمیں دوپہر ایک بجے جیل سے باہر نکال دیا گیا کہ کہہ کر کہ ہماری رہائی کے آڈر آچکے ہیں، جب یہ اطلاع ملی تو جیب میں ایک پیسہ تک نہیں تھا، اور فیصل آباد جانے والی سڑک جیل سے کم و بیش ایک کلو میٹر دور تھی، شدید دھوپ میں ہم تینوں سڑک کی جانب چل پڑے، سڑک پر پہنچے تو سوچا کہ اب بس میں کیسے سوار ہوں؟ جیب میں تو ایک دھیلہ تک نہیں تھا، ایک بس آئی اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا، بس رک گئی، کنڈیکٹر بس سے نیچے اترا، بہت تیزی میں تھا جیسا کہ کنڈیکٹر ہوتے ہیں، اس نے پوچھا کہا جاؤگے؟ ہم نے کہا کہ فیصل آباد…… بیٹھ جاؤ اس نے کہا، ہم نے اسے کچھ بتانے کی کوشش کی، کہ ہم کون ہیں اور ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے، جب منہ سے اتنا نکلا کہ پپیسہ نہیں ہے تو اس نے ڈرائیور سے کہا جانے دو، بس تیزی سے روانہ ہوگئی، دوسری بس کے انتظار میں کھڑے رہے، کو آدھ گھنٹے کے بعد دوسری بس آئی، پھر وہی ہوا………… بہر حال ایک تیسری بس آئی اس کے کنڈیکٹر سے تسلی کے ساتھ بات کی ہم آپ کو بس اڈے پر جاکر گھر فون کرکے کرایہ دے سکتے ہیں، وہ کوئی اللہ کا نیک بندہ معلوم ہوتا تھا بات اس کی سمھج میں آگئی اور اس نے ہمیں بس میں سوار کرایا فیصل آباد پہنچ کر اس نے ہم سے کرایہ بھی نہیں لیا تاہم گھر فون کرنے کی سہولت ضرور دی، شدید گرمی کی لہر اس وقت بھی جاری تھی، ہم سے صرف غیور کے گھر اس وقت ٹیلی فون تھا، ان کے والد جناب حکیم شریف احسن نے فون سنا، خوش بھی ہوئے اور کہا کہ سب ایک رکشہ میں سوار ہوکر ان کے گھر چلے آؤ، ہم نے رکشہ لیا اور غیور کے گھر روانہ ہوئے، جہاں حکیم صاحب نے رکشہ والے کو کرایہ ادا کیا اور بس والے کے لیے کرایے کے پیسے دیے، اور نصیحت کی وہ یہ کرایہ کی رقم بس کنڈیکٹر تک ضرور پہنچا دے، غیور کے گھر پہنچ کر غسل کیا، کسی طرح اپنے ماوں کے گھر اطلاع دی کہ ان کی گلی میں جو ٹیلی فون تھا اس کا نمبر حیکم صاحب کے پاس تھا، میرے ماموں حکیم صاحب کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اسی لیے یہ نمبر ان کے پاس تھا، جب انہیں ہماری رہائی کی اطلاع ملی تو سارے گھر والے حیکم صاحب کے ہاں پہنچے، حیکم صاحب نے افطاری کے لیے بہت اصرار کیا مگر ماموں نہیں مانے کہ افطاری اب گھر جاکر ہی کریں گے یوں میں نے اپنے ماوں کے اہل خانہ کے ہمراہ سلطان کو اس کے گھر چھوڑا، پھر اپنے گھر آیا………………………………………………………… آج اس واقعہ کو کم و بیش37 سال بیت چکے ہیں، ہم اسلامی جمیعت طلبہ میں تھے، اور ضیاء الحق حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی جس کے خلاف جمیعت نے احتجاج کیا اور مظاہرے کیے، حکومت کو تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے،…………………… جمیعت کے اس فیصلے پر اور حکمت عملی پر تبصرہ کا حق ہر کسی کو ہے، مگر یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ آج بھی جب کبھی پرانے دوستوں کی مجلس میں اس موضوع پر احباب کی کسی مجلس میں یا جماعت اسلامی کی کسی مجلس میں یہ بات ہوتی ہے تو اکثر دیکھا کہ مجلس بٹ جاتی ہے آدھے کہتے ہیں کہ ضیاء الحق ٹھیک تھا جب ایسی بات سنتے ہیں تو دکھ بڑھ جاتا ہے
