کوروناوائرس کے دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد کم و بیش تمام تر توجہ اس کی روک تھام کی جانب مبذول ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان اقداما ت کی وجہ سے نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے لوگوں کی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں۔ لہٰذا ان طریقوں اور رویوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے جو کورونا وائرس کی روک تھام میں معاون ہیں۔ پس انفرادی سطح پر ایسے رویے اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے جن سے وائرس کی دوسرے فرد میں منتقلی کو روکا جا سکے۔ اسی کے ساتھ ایسے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دی جا رہی ہے جو اپنی ذات کے علاوہ اپنے پیاروں کی زندگی بچانے اور انہیں تکلیف سے دور رکھنے کے لیے اہم اور مفید ہیں۔ ان میں سے ایک سیلف آئسولیشن ہے۔
اگر آپ کو یا آپ کے ساتھ رہنے والے کسی فرد کو کووڈ19- کی علامات ظاہر ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟ اس بارے میں چند اہم مشورے دیے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سیلف آئسولیشن سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر آپ میں یا آپ کے ساتھ رہنے والے کسی فرد میں کورونا وائرس (کووڈ19-) کی علامات ظاہر ہو گئی ہیں تو باہر مت جائیں۔ سیلف آئسولیشن کرنے والے کسی بھی وجہ سے گھر کو چھوڑ کر نہیں جاتے۔ اگر آپ کو خوراک یا ادویات کی ضرورت ہے تو فون پر یا آن لائن منگوائیں یا کسی سے کہیں کہ وہ پہنچا دے۔
گھر میں مہمانوں، مثال کے طور پر دوستوں یا خاندان کے افراد کو نہ آنے دیں۔ ان سے معذرت کر لیں۔
اس دوران اگر آپ کے گھر میں باغیچہ ہے تو آپ اس میں جا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے ورزش کرنی ہے تو گھر ہی میں کریں۔
آپ کو بظاہر کورونا وائرس کی کوئی علامت ہے، جیسا کہ تیز بخار ہے، لیکن سیلف آئسولیشن میں جانا ہے یا نہیں، اس بارے میں ابہام کا شکار ہیں تو کورونا وائرس سے متعلق حکومت کے فراہم کردہ نمبرز پر رابطہ کریں۔
سیلف آئسولیشن کا دورانیہ
اگر آپ میں کورونا وائرس کی علامات ہوں تو آپ کو 7 روزہ سیلف آئسولیشن کی ضرورت ہو گی۔ 7 دن کے بعد اگر آپ کا درجہ حرارت بلند نہ ہو یعنی بخار نہ ہو تو آپ کو سیلف آئسولیشن کی ضرورت نہیں۔ اگر درجہ حرارت تب بھی بلند ہو تو سیلف آئسولیشن میں رہیں جب تک درجہ حرارت نارمل نہ ہو جائے۔ اگر آپ کو 7 دن بعد صرف کھانسی ہو تو آپ کو سیلف آئسولیشن کی ضرورت نہیں۔ انفیکشن کے ختم ہونے کے بعد کھانسی کئی ہفتوں تک رہ سکتی ہے۔
اگر آپ کسی ایسے فرد کے ساتھ رہ رہے ہیں جس میں علامات ظاہر ہوئی ہیں تو ان کے ظاہر ہونے کے روز سے 14 دن تک آپ کو سیلف آئسولیشن کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ علامات ظاہر ہونے میں 14 دن لگ سکتے ہیں۔
اگر گھر میں ایک سے زیادہ افراد میں علامات ظاہر ہوئی ہیں، تو اس روز سے سیلف آئسولیشن شروع کریں جب پہلے فرد کو علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔
اگر آپ کو علامات ظاہر ہونے لگیں تو ان کے آغاز سے 7 روز تک سیلف آئسولیشن اختیار کریں، چاہے آپ کی مجموعی سیلف آئسولیشن 14 دنوں سے طویل ہی کیوں نہ ہو جائے۔
سیلف آئسولیشن کے بعد بھی گھر میں رہنے کی ضرورت ہو گی لیکن اب آپ خوراک وغیرہ لینے کے لیے باہر جا سکتے ہیں۔
بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ملازمین، جیسا کہ شعبہ طب سے وابستہ افراد کو علامات ظاہر ہونے پر کورونا وائرس کا فوری ٹیسٹ کرانا چاہیے۔
اگر آپ کو علامات ظاہر ہوں اور آپ ایسے فرد کے ساتھ رہ رہے ہوں جو کمزور، بیمار یا معمر ہو تو کوشش کریں کہ وہ کسی رشتہ دار یا دوست وغیرہ کے ہاں 14 دن کے لیے رہے۔ اگر آپ کا اکٹھا رہنا لازمی ہے تو ایک دوسرے سے دو میٹر کا فاصلہ رکھنے اور ایک ہی بستر استعمال نہ کرنے کی کوشش کریں۔
گھر میں انفیکشن کے امکان کو کم
کرنے کیلئے یہ کام کریں
اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے وقتاًفوقتاً کم از کم 20 سیکنڈ کے لیے دھوئیں۔ اگر صابن اور پانی نہ ہو تو ہینڈ سینی ٹائزر جیل استعمال کریں۔ کھانسی اور چھینک کے دوران منہ اور ناک کو (ہاتھوں کے بجائے) ٹشو سے ڈھانپیں۔ استعمال شدہ ٹشو کو فوراً ڈسٹ بِن میں پھینک دیں اور پھر اپنے ہاتھوں کو دھو لیں۔ ان اشیا اور سطحوں کو صاف کریں جنہیں آپ اکثر چھوتے ہیں، مثلاً دروازوں کی ہتھیاں، فون وغیرہ۔ باتھ روم استعمال کرنے کے بعد اسے دھوئیں۔
یہ کام مت کریں
ایک تولیے کو، چاہے وہ کسی بھی قسم کا ہو، زیادہ افراد استعمال نہ کریں۔
آئسولیشن کے دوران یہ کریں
گھر میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر آرام کریں اور سوئیں۔ پانی زیادہ پئیں، اتنا کہ آپ کو ہلکا پیلا اور صاف پیشاب آتا رہے۔ بخار کم کرنے کی عام دوا ڈاکٹر کے مشورے سے لیں۔ علامات میں شدت کی صورت میں ماہرین سے مشورہ کریں۔
(ماخذ: ”این ایچ ایس، برطانیہ‘‘)ADVERTISEMENT
Volume 0%
مز ید پڑ ہیئے
ماحول دوست توانائی کے اہم ترین ذرائع
بہت سے ممالک توانائی کی بیشتر ضروریات کوئلے، تیل اور قدرتی گیس سے پوری کرتے ہیں لیکن فاسل فیولز پر اس طرح کا انحصار بڑا مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ فاسل فیولز ختم ہو جانے والا ذریعہ ہیں۔ بالآخر دنیا میں فاسل فیولز ختم ہو جائیں گے یا پھر باقی بچ جانے والوں کو نکالنا بہت مہنگا ہو جائے گا۔ فاسل فیولز سے فضائی، آبی اور زمینی آلودگی بھی پھیلتی ہے۔ اس سے گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہوتی ہیں جس سے عالمی حدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ قابلِ تجدید توانائی (Renewable energy) کے ذرائع فاسل فیولز کی نسبت زیادہ ماحول دوست ہیں۔ یہ مسائل سے مبرا نہیں لیکن ان سے بہت کم آلودگی جنم لیتی ہے اور چند ایک گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ذرائع ختم نہیں ہوتے۔ شمسی توانائیسورج توانائی کا سب سے طاقت ور ذریعہ ہے۔ شمسی توانائی حدت، روشنی، گھروں اور عمارتوں کو ٹھنڈا کرنے، بجلی پیدا کرنے، پانی گرم کرنے اور مختلف صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ سورج سے پیدا ہونے والی توانائی سے فائدہ اٹھانے کی ٹیکنالوجی مستقل طور پر ارتقا پذیر ہے۔ اس میں چھتوں پر پانی گرم کرنے والی پائپیں، فوٹو وولٹیک سیلز اور مِرر اریز (mirror arrays) شامل ہیں۔ چھتوں پر پینل بے جا مداخلت نہیں کرتے لیکن زمین پر وسیع اریز جنگلی حیات کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ہوائی توانائیجب گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے تو اس کی جگہ لینے کیلئے ٹھنڈی ہوا بھاگم بھاگ آتی ہے، اسی لیے ہوا حرکت میں رہتی ہے۔ ہوا کی توانائی کو صدیوں تک بحری جہازوں اور اناج پیسنے والی پون چکی چلانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ آج ہوائی توانائی ہوائی ٹربائن کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے اور ان سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ یہ سوال اکثر پیدا ہوتا رہتا ہے کہ ان ٹربائنز کی تنصیب کہاں کی جائے کیونکہ ان سے ہجرت کرنے والے پرندوں اور چمگادڑوں کو مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہائیڈروالیکٹریسٹینیچے کی طرف بہنے والے پانی میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ پانی توانائی کا قابل تجدید ذریعہ ہے کیونکہ تبخیر اور بارش کے عالمی چکر کے باعث یہ مستقلاً موجود رہتا ہے۔ سورج کی حدت جھیلوں اور سمندروں کے پانی کی تبخیر کا سبب بنتی ہے جو بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد پانی دوبارہ زمین پر بارش یا برف باری کی شکل میں گرتا ہے اور بہہ کر دریاؤں اور ندی نالوں میں چلا جاتا ہے جہاں سے واپس سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ بہتے ہونے پانی کی طاقت کی مدد سے پہیوں سے میکانکی افعال انجام پاتے ہیں۔ ٹربائنز اور جنریٹرز، جو دنیا بھر میں ڈیموں پر لگے ہوتے ہیں، ان سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بعض چھوٹے ٹربائنز سے ایک گھر کے لیے بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اگرچہ آبی بجلی (ہائیڈروالیکٹریسٹی) قابلِ تجدید توانائی ہے لیکن اس کے ماحولیاتی اثرات زیادہ ہیں۔ جیوتھرمل انرجیزمین کے اندر کی حدت سے بھاپ بنتی ہے اور پانی گرم ہوتا ہے۔ اسے استعمال میں لا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے یا آلات کی مدد سے گھروں کو گرم کیا جا سکتا ہے۔ جیوتھرمل توانائی کو زمین کے اندر گہرائی سے یا سطح زمین کے نزدیک ذخائر سے نکالا جاتا ہے۔ سمندری توانائیسمندر میں قابل تجدید توانائی متعدد صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ سمندری لہروں اور بہاؤ سے قابل تجدید توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سمندر کی اندرونی حرارت سے بھی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ اس میں سمندر کے اندر ذخیرہ شدہ حدت کو بجلی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جائے تو توانائی کے دیگر قابلِ تجدید ذرائع کے مقابلے میں یہ بجلی سستی نہیں لیکن مستقبل میں سمندر اس توانائی کے حصول کا اچھا ذریعہ بن سکتا ہے۔(ترجمہ و تلخیص: وردہ بلوچ) بشکریہ ”تھاٹ کو‘‘ کون کیا ہے؟
”کون کیا ہے‘‘ (who is who) کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالاتِ زندگی اکثر چھپتے ہیں، جنہیں بیشتر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ فقط اُن ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے، یا اس لئے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔زمانہ بدل چکا ہے۔ قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے۔ وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔چنانچہ نئے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ”کون کیا ہے‘‘کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے:۔ذکی الحِس۔ نئی دہلوی: اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چائے نوشی سے) کافی بیزار رہے پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔1960ء میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چائے خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلبا کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے)۔1967ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیشتر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔ان دنوں پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیشتر موضوع مصحفی سے اخذ کئے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چونکہ مقالہ رسائل کے لئے نہیں، یونیورسٹی کے لئے ہے، اس لئے آپ نے شعرا کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں)۔اگر چائے اور سگریٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔دراصل آپ کے رویے (اور تنقید) کا دارومدار سگریٹوں اور چائے کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ 50 سگریٹوں اور 25 پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔1968ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں۔۔۔ لیکن چھان بین کرنے کے بعد 69ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔ لیکن جو جانتے ہیں وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان(کافی ہاؤس میں) سنایا کرتے ہیں۔۔۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :۔ پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے)۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں۔۔ فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔کھیل کود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔1969ء میں وزن کرتے وقت مشین سے کارڈ نکلا جس پر وزن پونے انتالیس سیر کے علاوہ یہ لکھا تھا۔۔ ” ابھی کچھ امید باقی ہے۔ غیر صحت مند حرکتیں چھوڑ کر ورزش کیجئے۔ صحیح غذا اور اچھی صحبت کی عادت ڈالئے اور قدرت کو موقع دیجئے کہ آپ کی مدد کر سکے۔‘‘آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا۔ حالانکہ اگر کسی مشین نے کبھی سچ بولا ہے تو اس وزن کی مشین نے 1969ء میں بولا تھا۔صحیح رقم خوش نویس: پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔آپ کی لکھی ہوئی تحریر پر پروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔ عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سردردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیٔ نیل کو وادیٔ بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرۂ غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہوا۔ چنانچہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرۂ غلام حسن تحریر فرمایا۔ایک رومانی افسانے میں حور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیئے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پھُلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہیے تھا وہاں لکھا۔ ستلی کئی عدد۔اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔ بارود پر الفریڈ نوبیل کے تجربات
نوبیل انعام کا نام الفریڈ نوبیل کے نام پر رکھا گیا، اتنا تو ہم جانتے ہیں لیکن شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ نوبیل نے بارود پر تحقیق کی، تجربات کیے اور اسے بہتر بنایا۔ نوبیل انعام کا بانی الفریڈ نوبیل سویڈن میں پیدا ہوا لیکن اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دوسرے ممالک میں گزارا۔ اس نے متعدد ایجادات کیں۔ ان میں ایک ڈائنامائٹ ہے۔ الفریڈ نوبیل نے اپنی زمینوں اور ایجادات سے بہت دولت کمائی۔ اس کے مرنے کے بعد اس دولت کو نوبیل انعامات کے لیے مخصوص کیا گیا جن میں امن کا نوبیل انعام بھی شامل ہے۔ امن کی جانب راغب ہونے سے قبل نوبیل بارود پر تجربات کرتا رہا۔ آئیے اس کی زندگی کے اس پہلو کے چند واقعات کا جائرہ لیں۔ پانچ سو سال پہلے ایجاد ہونے والے بارود سے زیادہ طاقتور نعم البدل کی تلاش نے الفریڈ نوبیل کو بے چین کر رکھا تھا۔ وہ طرح طرح کے تجربات کرتا اور بار بار کرتا مگر خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا ۔ اگرچہ ایمانیونل نوبیل نے اسی بارود سے ایک آمیزہ تیار کیا تھا جس کو وہ بارودی سرنگیں بنانے میں استعمال کرتا تھا لیکن وہ صرف جنگ میں کام آتی تھیں جبکہ الفریڈ نوبیل کی دلی خواہش تھی کہ موجودہ بارود سے جس میں بہت دھواں ہوتا تھا اور جو زیادہ طاقتور بھی نہ تھا، بہتر بارود ایجاد کیا جائے جو نہ صرف کان کنی کے کام آئے بلکہ اس کو بندوقوں اور توپوں میں بھی استعمال کیا جاسکے ۔ 1875ء میں الفریڈ نوبیل نے بارودکی خوبیوں اور خرابیوں کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے کہا ”کہ اس پرانے سفوف میں مختلف النوع خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس کو طرح طرح سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کان کنی میں صرف دھماکہ پیدا کرتا ہے جب کہ بندوق کی نالی میں دھماکے کی بجائے حرکت پیدا کرتا ہے۔ کسی بند خول میں یہ دونوں کام کرتا ہے۔ فلیتے اور آتش بازی میں دھماکے کے بغیر آہستہ آہستہ جلتا ہے ۔ ان مختلف صورتوں میں اس کا زور فلیتے میں ایک اونس فی مربع انچ سے (خول میں پھٹتے وقت ) 85 ہزار پاؤند فی مربع انچ تک ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس میں بہت سے نقائص ہیں اور سائنس نئی ایجاد اور دریافت سے اس کی اہمیت کو کم کرتی جا رہی ہے۔‘‘ 1880ء کی دہائی میں یورپ کی بہت سی حکومتیں کسی ایسے بارود کی تلاش میں تھیں جس میں دھواں کم ہو یا بالکل نہ ہو تاکہ اس کو فوجی اور جنگی ضروریات کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ اس لئے بہت سے کیمیا گر اس مسئلے کے کسی حل کی تلاش میں سرگرداں تھے مگر کسی کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی تھی۔ الفریڈ نوبیل نے 8 سال کی محنت اور کوششوں کے بعد سیلو لائیڈ کی مددسے آخر کار کامیابی حاصل کر لی۔ 1887ء میں اس نے نئے بارود کی ایجاد کا اعلان کیا جس میں دھواں نہ ہونے کے برابر تھا ۔ الفریڈ نے نئے بارود کو ”بیلسٹائٹ‘‘ کا نام دیا۔ اس نئے بارود کے اجزائے ترکیبی میں نائٹروگلیسرین اور اس میں آسانی سے حل ہوجانے والے نائٹروسیلولوز کے علاوہ کا فور بھی شامل تھا۔ الفریڈ نوبیل کے بیان کے مطابق یہ آمیزہ جلنے پر بہت زیادہ طاقت پیدا کرتا ہے، راکھ نہیں چھوڑتا اور اس میں دھواں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس خبر نے فوجی حلقوں ہی میں نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں بھی خوف پیدا کر دیا کہ ایسی نئی نئی ایجادات کی وجہ سے ان کی اپنی جنگی صلاحیتیں دوسروں کے مقابلے میں کم تر ہو سکتی ہیں، اس لئے بیشتر نے نئے بارود میں خاص دلچسپی لینی شروع کر دی۔ الفریڈ نوبیل نے سب سے پہلے فرانس کی حکومت کو اس نئی ایجاد کے پیٹنٹ کی درخواست دی مگر وہاں کے ارباب اختیار نے یہ درخواست اس لئے رد کر دی کہ ان کے خیال کے مطابق اس جیسی ایک شے فرانسیسی پروفیسر پال ویلا 1885ء میں ایجاد کر چکا تھا جو اس کے سیاسی تعلقات کی بنا پر بحری اور بری افواج کے استعمال میں آچکی تھی۔ اس موقع پر الفریڈ نوبیل نے جل کر کہا تھا کہ ایک طاقتور سفارش رکھنے و الا کم طاقت کا بارود کمزور سفارش رکھنے والے زیادہ طاقتور بارود سے بے شک اچھا ہی نظر آئے گا۔ ”بیلسٹائٹ‘‘ کو سب سے پہلے اٹلی کی حکومت نے قبول کیا۔ الفریڈ نوبیل نے اپنے ”اویجلیانا‘‘ کے کارخانے میں اس کی تیاری کے لئے ایک الگ حصہ مقرر کیا اور 1889ء میں 3 سو ٹن بارود فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔ بعد میں اٹلی کی حکومت نے 5 لاکھ لیر ے کے عوض خود ”بیلسٹائٹ‘‘ بنانے کے حقوق الفریڈ نوبیل سے خرید لئے۔ نوبیل نے قیام فرانس کے دوران جب اپنی ایجاد ”بیلسٹائٹ‘‘ کا اعلان کیا تو فرانس کی بارود سازی کی اجارہ داری کے ارباب اختیار جو پروفیسر ویلا کے حاشیہ بردار بھی تھے، اس کے دشمن ہو گئے۔ جہاں نوبیل اپنے نئے بارود کے تجربے کرتا، اس جگہ کے بارے طرح طرح کے قصے گھڑے جاتے جن کا مقصد صرف اور صرف نوبیل کو پریشان رکھنا تھا۔ اس سارے کھیل میں سیاسی افراد بھی شامل ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الفریڈ نوبیل پر جاسوسی اور حکومتی تجرباتی راز کی چوری کے الزامات لگائے گئے۔ اس کو قید کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور تجربہ کرنے، تجربے میں استعمال ہونے والے اسلحے اور ”بیلسٹائٹ‘‘ بنانے کے سارے اجازت نامے منسوخ کر دئیے گئے۔ یہ سارے الزامات بے بنیاد تھے اور سارے سمجھ دار لوگ جانتے تھے کہ اس سارے تماشے کے پس پردہ کیا سیاسی عزائم کارفرما ہیں۔ لہٰذا الفریڈ نوبیل نے بادل نخواستہ اپنا بوریا بستر سمیٹا اور اس شہر کو خیر باد کہا جس کو وہ 18 برسوں سے گھر سمجھتا تھا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ کن مرحلہ تھا جس کے گہرے اثرات الفریڈ نوبیل کی زندگی پر مرتب ہونے تھے ۔ اپنے بھائی رابرٹ سے سویڈن میں ملاقات کے بعد الفریڈ نے اٹلی، اسکاٹ لینڈ اور جرمنی کے کارخانوں کا جائزہ لیا اور پیرس واپس پہنچا۔ اپنی تجربہ گاہ سے ضروری سامان اکٹھا کیا اور اٹلی میں سان ریمو کے مقام پر ایک بڑا سا بنگلہ خرید کر اس کو اپنی قیام گاہ بنا لیا۔ یہ ہجرت 1891ء میں ہوئی۔ الفریڈ کو امید تھی کہ اٹلی کی آب و ہوا اس کے پھیپھڑوں کے لئے مفید ہو گی اور اس کا دائمی نزلہ اور مستقل سرکا درد، جو نائٹروگلیسرین سونگھ سونگھ کر اس کی جان کو آگیا تھا، دور ہوجائے گا۔ سان ریمو کا یہ بنگلہ ساحل سمندر پر واقع تھا جس میں قسم قسم کے پھول، سنگترے کی جھاڑیاں اور پام کے اونچے اونچے درخت لہلہاتے تھے۔ اس بنگلے کا اطالوی نام Mio Nido (میرا گھونسلا) تھا ۔ ایک بار الفریڈ کے جرمنی کے کارخانے کا صدر اس سے ملاقات کے لئے آیا تو بنگلے کا نام دیکھ کر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ”گھونسلے میں دو چڑیاں ہونی چاہئیں نہ کہ صرف اکیلی۔‘‘ الفریڈ نے بنگلے کا نام بدل کر Villa Nobel رکھا دیا اور آج تک وہ مکان اسی نام سے موسوم ہے ۔ باوجود اس کے کہ الفریڈ نوبیل کو بہت سفر کرنے پڑے، پیرس میں اس کا وقت بہت صبر آزما مگر تجرباتی معاملات میں کامیاب بھی گزرا۔ اس دوران چھوٹی بڑی سب ملا کر 50 ایجادات ہوئیں۔ یہیں الفریڈ نوبیل کو بہت سے اچھے اور بعض تلخ تجربات بھی ہوئے۔ بڑے مالی فوائد بھی ہوئے، مقدمے بازیاں بھی ہوئیں، اداروں میں غبن بھی ہوئے اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے قائم کردہ اداروں میں حادثات بھی ہوئے ۔ پیرس ہی میں قیام کے دوران الفریڈ کے بڑے بڑے ادارے قائم ہوئے۔ ایک کارخانے پر کام ہوا اور اس کے شریک کار پال باربی نے اس کی پیٹھ پیچھے غیر قانونی حرکات بھی کیں جن کی وجہ سے الفریڈ نوبیل کو بڑے نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔پیرس میں قیام کے آخری 5 برسوں کے دوران الفریڈ کو اپنی نجی زندگی میں بھی پریشانیوں اور صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ 1889میں الفریڈ کی ماں کا انتقال ہوا جب کہ ایک سال قبل کام کی زیادتی کی وجہ سے اس کا بھائی لڈونگ بھی بیمار ہو کر مر گیا۔ ”بیلسٹائٹ‘‘ کے سلسلے میں فرانس کی حکومت سے تلخیاں ہوئیں ۔ الغرض یہ الفریڈ نوبیل ہی کی ہمت تھی کہ اپنی بیماری اور پریشانیوں کے باوجود وہ جدوجہد کرتا رہا اور آخر کار مجبور ہو کر 58 سال کی عمر میں جب اس نے پیرس کو خیر باد کہا تو وہ ایک سخت پریشان اور تھکا ہوا انسان تھا جسے سکون کی تلاش تھی۔اگر آرام اور سکون کے زاویے سے دیکھا جائے تو پیرس ہی وہ مقام تھا جس کو الفریڈ اپنا گھر بھی سمجھتا تھا اور یہیں اس نے اپنی زندگی کے شروع کے دن بھی اچھے گزارے تھے۔پیرس کے فلیٹ کے پردوں اور چلمنوں کے پیچھے دنیا کی نظروں سے اوجھل ایک نوجوان خاتون بھی تھی جس پر الفریڈ مہربان تھا اوراس کو امید تھی کہ وہ اس کی شریک زندگی بنے گی۔ مگر سان ریمو پہنچنے کے ایک سال کے اندر ہی دونوں کے درمیان دوری ہو گئی۔الفریڈ نوبیل جیسے حساس انسان کے لئے یہ بہت کاری زخم تھا مگر اس نے اس زخم کو کمال مہارت، اپنی بے پناہ دولت، دنیا بھر میں پھیلے کاروبار کے جھمیلوں اور اپنی خاموش گہری تنہائی میں چھپا لیا۔ پالتو جانور سے کورونا ہو سکتا ہے؟
٭: کووڈ19- کے مریض سے عام جانور یا پالتو جانور کو بیماری منتقل ہونے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ٭:بعض جانور اگر انسانوں کے زیادہ قریب ہوں تو ان میں کورونا وائرس کی منتقلی کا امکان ہوتا ہے۔ تاہم جانوروں سے انسانوں میں کورونا وائرس کی منتقلی کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ٭:حالیہ شواہد کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بیماری بنیادی طور پر انسان سے انسان میں منتقل ہو رہی ہے۔ ٭:یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کووڈ19- کا مرض بلیوں سے انسانوں میں داخل ہو سکتا ہے۔ ٭:کورونا وائرس، وائرسز کا ایک خاندان ہے جو جانوروں میں عام ہے۔ کبھی کبھار یہ وائرس انسانوں کو انفیکٹ کرتے ہیں اور پھر انسانوں میں پھیلنے لگتے ہیں۔ مثلاً ”سارس کوو‘‘ سیوٹ بلی سے پھیلا اور ”ایم ای آر ایس کوو‘‘ خطہ عرب کے اونٹوں کی ایک قسم سے منتقل ہوا۔ ٭:جہاں تک کووڈ19- کا تعلق ہے تو یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ یہ جانوروں سے پھیل سکتا ہے لیکن احتیاط لازمی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو جانوروں کی منڈی جانا پڑتا ہے تو اپنی حفاظت کے لیے جانوروں کو مت چھوئیں اور اس سطح کو بھی نہ چھوئیں جس پر جانور رہتے ہیں۔٭:کھانا کھاتے اور پکاتے وقت احتیاطی تدابیر اپنائیں۔ کچے گوشت کو اس طرح ہینڈل کریں کہ اس سے جراثیم آپ تک نہ پہنچیں۔ گوشت کو اچھی طرح پکا کر کھائیں۔ نیم گلا ہوا گوشت مت کھائیں۔ (ماخذ: عالمی ادارۂ صحت)