نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوزیہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے

بلا امتیاز…… امتیاز اقدس گورایاimtiazaqdas@gmail.com
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوزیہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئےکانگریسی رہنما اعتراف کرتے رہے کہ محمد علی جناح کی اصول پسندی کو مرعوب کیا جاسکا نہ انہیں سامراجی قوتیں اپنے شیشے  میں اتار سکیں۔ یہ ہیں ہمارے عظیم قائد جنہوںنے اپنی زندگی برصغیر کی مسلمان قوم کو آزا د وطن دلانے میں صرف کر دی۔ قوم 25 دسمبر 2024ء کو بانی پاکستان کا 148 واں جنم دن جاہ وحشمت اور جوش وخروش سے منائے گی اس روز تقاریب میں تعمیر وترقی اور وطن کو خوشحال اور خواندہ بنانے کے مشن کے عہدکی تجدید کی جائے گی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی عدیم المثال قیادت میں مظلوم مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان میں دل وجان سے حصہ لیا، 23 مارچ 1940  کو منٹو پارک لاہور میں قرارداد لاہورمنظور ہوئی یہ وہی آزاد وطن کی قرارداد تھی جیسے متعصب ہندو پریس نے ”قرارداد پاکستان” لکھا۔ خدا کی کرم نوازی اور اکرام کی بدولت محض سات برس کی جہد مسلسل کے بعد پروردگار عالم نے مسلمانوں کو آزاد وطن کا تحفہ دے دیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے… قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں بہت سے پہلو ایسے ملتے ہیں کہ ان کو ہم مشعل راہ بنالیں تو نہ صرف ہماری اپنی زندگی باوقار انداز میں گزر سکتی ہے بلکہ ملک وقوم سے محبت اور اس کیلئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہمارے دلوں میں پیدا ہوسکتا ہے۔ قائد اعظم کی زندگی ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے جس سے ان کی اصول پسندی کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی اُن کی نظروں میں بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ قائد اعظم قوم کے محبوب رہنما ہیں اُن کی شخصیت کارنامے، جدوجہد، کامرانیوں اور ناکامیوں سمیت زندگی کے ہر پہلو کے متعلق جاننے میں عوام دلچسپی رکھتی ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت پاکستان کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا کے معروف تاریخ دان اور دانشور سیاستدان محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں، تدبر، سیاست، فہم وفراست کے معترف ہیں جس کا ذکر مختلف ادوار کی کتابوں، رسائل اور اخبارات میں ملتا ہے۔ نئی نسل کیلئے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ اس عظم تاریخی پس منظر کا صحیح ادراک حاصل کرے جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے بعد مسلمانوں کو برطانوی ملوکیت اور ہندوفرقہ پرستی کی متحدہ قوت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز قیام پاکستان کی خواہش اور ہندوراج کی شدید مخالفت تھی۔ وہ ہندو تہذیب و تمدن کے عناصر ترکیبی سے بخوبی آگاہ ہونے کی وجہ سے اس کی سخت مخالفت اور قیام پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ یہی دونوں پہلو اِن کی سیاسی جدوجہد کے نمایاں ترین اوصاف خیال کیے جاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کوشش اور اس کے زیرقیادت برصغیر کے تمام مسلمانوں کی متحد قوت کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاتھا اور مسلمانوں کیلئے بنا تھا۔ اسلامی اصول اور قوانین کے نفاذ کیلئے وجود میں آیا تھا۔ قائد اعظم نے جس وحدت ملی کا خواب دیکھا اور قوم کو مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد کرکے اسلامی تصورات کے مطابق تربیت دے کر روشن تعبیر زندہ و بیدار حقیقت پاکستان کی صورت میں پیش کردی۔ وہ کوئی نیا نعرہ یا عارضی سبق نہ تھا جسے کسی عصری ضرورت کیلئے فراموش کیا۔ قائد اعظم نے خدا کی حقیقت کو بار بار واضح کیا اور افراد ملت کو سمجھایا کہ ہمارا کلمہ ایک۔ رسول ایک۔ قرآن ایک۔ خدا ایک۔ پھر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم ایک ہو کر اپنے ملک کے استحکام اور مذہب کی اشاعت اور ملت کی خوشحالی و سربلندی کیلئے کوشاں نہ ہوں۔ اگر آج بھی ہم ملکی اتحاد و تعاون اور صحیح اسلامی جوش و خروش سے کام کریں تو اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان جلد ہی عظیم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ وطن کی تعمیرواستحکام کیلئے تحریک پاکستان جیسے عزم و اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرار داد لاہور نے برصغیر کی تاریخ کا رُخ بدل دیا۔ بلاشبہ اتحاد اور تنظیم کی بدولت مسلمانوں نے دو طاقتور دشمنوں ہندو اور فرنگیوں کو شکست دے دی۔ پاکستان کا قیام کسی ایک فرد یا کسی ایک طبقہ کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ پوری قوم نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دی جس کے نتیجے میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ اس تاریخی جدوجہد میں ہر طبقے کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پوری محنت اور لگن کیساتھ پورا کیا۔ ان کا کردار اس قابل ہے کہ اسے قومی تاریخ میں شامل کیا جائے۔مسلمانانِ برصغیر کو آزادی کی جو قیمت ادا کرنی پڑی وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی، ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغواء کیا گیا پھر بھی مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ 11 ستمبر 1948ء کو آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو 12 ستمبر 1948ء کو بھارت اور پاکستان میں سرکاری سوگ کے درمیان میں دفنادیاگیا۔ اُن کے جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ آج قائد اعظم محمد علی جناح کراچی میں سنگ مرمر کے ایک مقبرے مزار قائد میں آسودہ خاک ہیں۔  قوم ہمیشہ بانی پاکستان کی محبتوںکی مقروض رہے گی ہم نے اس بات کا بھی عہد کرنا ہے کہ ہم قائداعظم کے فرمودات پر عمل کرکے وطن کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں