کچہری
میاں منیر احمد
نصف صدی کا قصہ‘ کتابی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہے، یہ کتاب محترم شکور طاہر کی کلیدی شخصیت کے گرد‘ باد نسیم کی طرح گلوں اور کلیوں سے کھیل رہی ہے‘ بہت پیار سے لکھی گئی ہے اس میں جس جس کردار کا ذکر ہے یہ تمام کردار کتاب کو پیار اور توجہ سے پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں جس پیار اور توجہ سے کتاب پڑھی اسی توجہ سے کچھ لکھنے کی ہمت کررہاہوں‘ قبلہ شکور طاہر اورجمہوری پبلیکیشنز کا شکریہ‘ جنہوں نے ان کرداروں سے ملاقات کرائی جو پاکستان ٹیلی ویژن میں خدمات کے دوران خبر کی اہمیت اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ یہ کتاب سے نگاہیں ہٹانے کا موقع ہی نہیں دے رہے‘ آج اگر ملک کی صحافت کا معیار خزاں رسیدہ پتوں کی مانند ٹہنی سے ٹوٹ کر گر رہا ہے ہے‘ تو یہ کتاب صحافت کا معیار اور خبر کی صحت واپس لانے میں مددگار بن سکتی ہے صحافت کے گرتے ہوئے معیار پر اس کتاب کے آنسو تھکی تھکی سی صحافت کی آگ بجھانے کے لیے کارآمد بن سکتی ہے جس طرح کی صحافت شکور طاہر نے کی‘ آج کے دور میں یہ طرز بیاں اور صحافت مس فٹ ہے‘ تاہم یہ کتاب دبے قدموں آہستگی سے دروازہ کھول کر ملکی صحافت میں داخل ہوچکی ہے اور اب یقیناً اس کے اثرات بھی ظاہر ہوں گے اور خبر فائل کرتے ہوئے ”خبر“ سے جان چھڑانے والی ج کے صحافیوں کی بری عادت ترک ہوجائے گی یہ میرا گمان نہیں بلکہ یقین ہے یہ کتاب اپنے فکر مند لہجے میں ہر عامل صحافی سے کہہ رہی ہے ”تمہیں کوئی بھی پرابلم ہو تو مجھ سے ڈسکس کرسکتے ہیں“ اور جو بھی سیکھنا چاہے یہ کتاب اس کے دل میں دبے آگ جیسے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے اور محنت کرنے والی صحافت کی رگوں میں جو ”کلاٹ“ آچکا ہے اسے دور کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور جو سیکھنے کی متمنی ہیں ان سب کی نظریں کتاب پر جمی ہوئی ہیں‘ کتاب یہ بات ثابت کر تی ہے کہ شکور طاہر پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ ہیں‘ انہیں ایک ماہر اور منجھے ہوئے براڈ کاسٹر کی طرح اپنے کام پر عبور حاصل ہے اور مکمل گرفت بھی ہے‘ جملوں کی تراش خراش‘ الفاظ کے چناؤ کا ہنر غلاموں کی مانند ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑا ہے“ اردو اور انگریزی پر مکمل عبور‘ واقعات سے واقفیت‘ ْ جغرافیے کا علم‘ ایک اچھے صحافی کی خوبیوں میں شامل ہے‘ شکور طاہر کی خوی رہی کہ وہ خبر لکھتے ہوئے‘ مختصر جملے لکھتے کہ پڑھنے میں آسانی رہے‘ اور مفہوم بھی نہ بدلے‘ ڈائریکٹر نیوز کی حیثیت سے وہ خبر نامے میں سرخیوں میں جدت لائے‘ پارلیمانی‘ عدالتی‘ بجٹ اور سفارتی اور کسی بھی سطح کی عالمی راہنماؤں کی کانفرنس کی رپورٹنگ کی ذمہ داری جب بھی ملی اسے خوب نبھایا‘ نواب محمد احمد خان قتل کیس کی رپورٹنگ بھی اور اور اس سے قبل نیپ کے کیس کی بھی عدالتی رپورٹنگ کی‘ نواب محمد احمد خان قتل کیس کی سماعتوں کے یہ گواہ ہیں‘ انہیں چاہیے کہ کبھی ایک ایسی محفل سجائیں کہ جس میں ہمیں بتائیں کہ بھٹو صاحب سے انصاف ہوا یا نہیں ہوا‘ اور یہ بھی بتائیں کہ نیپ کے خلاف ریفرنس کی اصل کہانی کیا تھی؟1973 کا جب آئین بنا تو اس وقت انہوں نے ان یادگار لمحوں کی پارلیمانی رپورٹنگ کی جو ایک ریکارڈ ہے‘ ایسی رپورٹنگ کہ کوئی نکتہ اوجھل نہیں رہا‘ اب ایسی صحافت اور رپورٹنگ ناپید ہوچکی ہے‘بے شمار مواقع ایسے بھی ملتے ہیں کہ جہاں ان کی قومی‘ اور عالمی معاملات پر سفارتی نزاکتوں‘ رکھ رکھاؤ اور پیچیدہ معاملات کو خوش اسلوبی سے بیان کرنے کی صلاحیت‘ خبر میں ادبی چاشنی کی صداقت کا پورا وزن دیکھنے کو ملتا ہے‘ ان کے سینے میں بہت راز ہیں‘ اور نایاب معلومات کا خزانہ بھی ان کے سینے میں دفن ہے‘ دشت صحافت میں قدم رکھنے والے ہر نوجوان کو یہ کتاب بہترین راہنمائی دے سکتی ہے‘ سید نذیر بخاری‘ جو صاحب اسلوب مصنف اور الیکٹرانک میڈیا کا ایک بڑا ہی معتبر نام ہیں‘ درست لکھا کہ شکور طاہر‘ ایک عہد ساز شخصیت ہیں‘ وہ ان کی ادارتی مہارت کا دل کھول کر اعتراف کرتے ہیں‘ حبیب اللہ فاروقی‘جسٹس خلیل الرحمن‘ دلدار پرویز بھٹی‘ امجد اسلام امجد‘ کنور دلشاد‘صلاح الدین چوہدری‘ صفدر چوہدری‘ رفیق گورایہ‘ یاسمین واسطی‘ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ‘ ڈاکٹر سلیمان ملک‘ پروفسیر فتح محمد ملک جیسے معتبر نام ان کے حلقہ یاراں میں شامل رہے ہیں‘ مولانا وجیہ السیماء عرفانی شکور طاہر سے ٹوٹ پر پیار اور محبت کرتے تھے‘ طالب علمی کے دور میں آزاد امیداور کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے کونسلر بھی منتخب ہوئے‘ اور انہیں رول آف آنر ملا‘ اور ادبی اور ڈی بیٹنگ سوسائٹی کے بے شمار سرٹیفیکیٹ حاصل کیے‘ تعلیم ہو یا طلبہ یونین‘ ثقافتی حلقہ ہو یا ادبی‘ ہر حلقے میں انہوں نے نام کمایا ہے اپنے دوستوں کے لیے قربانی دینے کی بھی ایک تاریخ رکھتے ہیں‘ خود غرضی یا خود نمائی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری‘ حسن سخن‘ تہذیب‘ شائستگی‘ علمیت‘ وقار‘ متانت کی مکمل تصویر ہیں‘ اپنی تعلیم‘ تجربے اور حالات حاضرہ سے آگاہی کے باعث خبر نامہ کو انہوں نے ناظرین کی توجہ کا مرکز بنادیا‘1997 میں ڈائریکٹر نیوز بنے تو نیوز سینٹرز پر کورسز کا اہتمام کیا‘ یہ کم و بیش دس سال تک ڈائریکٹر نیوز رہے‘ قبلہ سعود ساحر کے ہمراہ ان کے دفتر میں متعدد بار ملاقات ہوئی‘ ہم تو قبلہ سعود ساحر جیسے ستون کے پیچھے ہی رہے اور کبھی بھی ان سے دو قدم آگے بڑھ کر خود نمائی کی کوشش نہیں کی‘ ہر سال وہ 17 اگست کو برادر عزیز سرمد سالک کی رہائش گاہ بریگیڈئر صدیق سالک شہید کے لیے آتے ہیں‘ دعاء کے لیے‘ تو خوب محفل جمتی ہے‘ دل بھی بہت چاہتا ہے کہ پرانے دوستوں کے ساتھ محفل جمائیں لیکن ہر کسی کی اپنی کوئی نہ کوئی مصروفیت کے باعث یہ ممکن یہ رہا اگرچہ کافی وقفے کے بعد ملاقات ہوتی ہے تاہم گرمجوشی میں کمی نہیں آئی‘ دوستوں کے لیے بہت شفیق ہیں‘ وہ آج بھی اس عمر میں جوان معلوم ہوتے ہیں‘ الیکٹرانک میڈیا کی ایک پوری نسل کی ا نہوں نے تربیت کی ہے‘ اردو ابلاغ عامہ کے فروغ میں شکور طاہر کی مجموعی خدمات پاکستان کی برقی صحافت کا سنہری باب ہے
