سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس مشیر عالم نے کہا ہے کہ بعض اوقات ججز کو بھی منہ چھپانا پڑتا ہے، بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی عالمی انصاف رپورٹ کے مطابق دنیا کے 128 ممالک میں سے پاکستان 126 ویں نمبر پر ہے، کاروبار میں آسانی کے عالمی انڈیکس میں دنیا کے 190 ملکوں میں سے پاکستان 156 نمبر ہے
انھوں نے یہ با ت کرونا وائرس کے باعث عدالتی نظام کو درپیش مسائل کے عنوان سے منعقدہ تقریب کے دوران کہی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے کہا نئی صدی کے کچھ نئے تقاضے ہیں ہمیں اُن کے ساتھ چلنا ہے، اب ہر چیز آن لائن جاری ہے۔ایڈووکیٹ حامد خان نے مزید کہا پہلے شاپنگ آن لائن ہوتی تھی، پھر بینکنگ آئن لائن شروع ہوئی، اب انصاف بھی آن لائن ملے گا، چلیں آن لائن ہی سہی انصاف ملے گا تو سہی، کرونا وبا نے ہمیں نقاب کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جج، وکیل اور سائلین ایک دوسرے سے منہ چھپائے رکھتے ہیں، اچھا ہے جج اور وکیل کو ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنی پڑے گی، یہ بھی اچھا ہے کہ وکیل اپنے موکل سے بھی منہ چھپا کر رکھتا ہے۔سینئر وکیل ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ ہمیں آگاہی ملنی چاہیے کہ درخواست دائر ہوئی لیکن چھ ماہ تک سماعت کے لیے مقرر نہ ہو سکی، یہ آگاہی بھی دی جانی چاہیے کہ فیصلہ محفوظ ہوا تو کب تک محفوظ رہے گا؟ ہمیں یہ آگاہی بھی ملنی چاہیے کہ مختصر فیصلہ ہو گیا ہے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوگا؟؟کیا سافٹ ویئر سے یہ بھی پتہ چل سکے گا مختصر فیصلہ آئے چھ ماہ ہوچکے تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں آیا، کمپیوٹر کا دور ہے کہیں کسی دن ہمیں جج کی جگہ کمپیوٹر نہ رکھنا پڑ جائے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مشیر عالم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا جیسے حامد خان صاحب نے منہ چھپانے کی بات کی ہمیں بھی کئی بار منہ چھپانا پڑتا ہے،جب مقدمات کا فیصلہ جلدی نہیں آتا تو ہمیں وکلاء سے منہ چھپانا پڑتا ہے، میری بیگم بھی حجاب کرتی ہیں،ایک تقریب میں میرے دوستوں نے کہا آپ کی بیوی آپ سے منہ کیوں چھپاتی ہیں؟پھر جب کرونا آیا تو لوگوں نے ماسک پہننا شروع کردیئے،میں نے دوستوں سے کہا آپ لوگوں کو میری بیوی کی آہ لگی ہے اب سب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
جسٹس مشیر عالم نے مزید کہا بچپن سے مجھے ٹیکنالوجی کا شوق تھا،کرونا نے یقیناً ہم سب کی زندگی بدل دی ہے،میں گزشتہ بیس سال سے آٹومیشن سے وابستہ ہوں، ہم نے سب سے پہلے سندھ ہائیکورٹ میں آٹو میشن کی کوشش کی، وکلا نے آٹومیشن کو اپنا دشمن سمجھا اور احتجاج شروع کر دیا،میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ تھا میرے خلاف بھی احتجاج ہوا،مجبوراً ہمیں ضلعی سطح پر آٹومیشن سسٹم ختم کرنا پڑا،حکومت سے فنڈز کی بات کی تو انکار کر دیا گیا،ہم فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں آٹومیشن سسٹم کی تنصیب کر رہے ہیں،اگر بار یہ سمجھتی ہے کہ آٹومیشن ان کی پریکٹس میں رکاوٹ ہے تو اس سے مشکلات بڑھیں گی،وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے مقدمات دائر کر سکیں گے،اور پھر ہمیں منہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری شمیم الرحمٰن نے خطاب میں انکشاف کیا گزشتہ چار ماہ سے ماڈل کورٹس میں مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی،کورونا کی وجہ سے ٹرائل کورٹس میں ملزمان کو پیش نہیں کیا جا رہا،ٹرائل کورٹ میں ملزمان کو وڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا جانا چاہیے،قتل جیسے اہم مقدمات میں ملزم کا فیصلے کے وقت وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونا ضروری ہے۔ایڈووکیٹ علی ظفر نے تقریب سے خطاب میں کہا کرونا وائرس نے ہماری زندگی کو بدل دیا ہے،ہمارا عدالتی نظام بھی کرونا سے نہیں بچ سکا،کرونا وائرس ہمارے لیے ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا موقع ہے،ہمیں لانگ ٹرم کیلئے نیو جنریشن ڈیجیٹل جوڈیشل پورٹل بنانا ہوگا،وزیر اعظم سے کل بات ہوئی انھوں نے کہا جوڈیشل پورٹل کیلئے حکومت تیار ہے۔