اسلام آباد کے نواح میں واقع فارم ہاؤس کے مالک بجٹ کے آنے کے فوراً بعد اپنا پرتعیش فارم ہاؤس فروخت کرنے کا پلان بنا رہے تھے، تاہم اب انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا ہے اور اب وہ اپنے فارم ہاؤس کو بدستور رکھنا چاہتے ہیں۔
فارم ہاؤس فروخت کرنے اور ارادہ بدلنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئےبتایا ‘بجٹ میں بہت زیادہ ٹیکس کی وجہ سے میں نے فروخت کا سوچا تھا۔ اب جب وہ ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے تو میں نے بھی ارادہ بدل دیا سال 21-2020 کے بجٹ میں بے ہنگم لگژری ٹیکس لگا دیا گیا تھا، جس کی موجودگی میں فارم ہاؤس رکھنا نفع کی بجائے نقصان کا سودا بن جاتا۔
لگژری ٹیکس کتنا تھا؟
مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں اسلام آباد اور اس کے نواح میں واقع فارم ہاؤسز اور وسیع اور پرتعیش بنگلوں پر لگژری ٹیکس لگایا گیا تھا۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق چار کنال رقبے پر محیط فارم ہاؤسز کے پانچ سے سات ہزار مربع فٹ تعمیر شدہ حصے پر 25 روپے فٹ سالانہ اور سات ہزار مربع فٹ سے زیادہ تعمیراتی حصے پر 40 روپے فٹ سالانہ لگژری ٹیکس عائد کیا گیا تھا
اسی طرح دو سے چار کنال رقبے کے رہائشی مکانات پر ایک لاکھ روپے فی کنال ٹیکس عائد کیا گیا تھا جبکہ پانچ کنال اور اس سے بڑے مکانات پر دو لاکھ روپے فی کنال سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔
ایف بی آر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ فارم ہاؤسز اور بڑے گھروں پر ٹیکس کی تجویز اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی خواہش پر بجٹ میں شامل کی گئی تھی۔ لگژری ٹیکس اسلام آباد کے ذمہ دار ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو ملنا تھا اور اس کو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری بھی سی ڈی اے کے سر ہونا تھی حکومت نے اسلام آباد اور اس کے گردو نواح میں موجود فارم ہاؤسز اور بڑے بنگلوں پر عائد لگژری ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
سی ڈی اے کے ایک عہدیدار نےبتایایہ ٹیکس زیادہ تھا اور اس پر عمل درآمد بہت مشکل ہو جاتا، اسی لیے اسے واپس لینے کا فیصلہ کیا گیاتاہم لگژری ٹیکس کی واپسی سے متعلق دریافت کرنے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا
اسلام آباد میں کاروبار کرنے والے ایک پراپرٹی ڈیلر کا کہنا تھا کہ اگر سی ڈی اے لگژری ٹیکس ختم نہ کرتی تو لوگوں نے اپنے فارم ہاؤسز فروخت کر دینے تھے
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پراپرٹی کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور ایسے میں اتنے مہنگے فارم ہاؤسز اور بڑے گھروں کے لیے گاہک ملنا بھی محال ہوتا۔
ایف بی آر کے سینئیر اہلکار کا کہنا تھا کہ لگژری ٹیکس اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے وسائل میں ا اضافہ کر دیتا ختم کیا جانا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں ایک ہزار سے زیادہ فارم ہاؤسز اور وسیع و عریض رہائش گاہیں موجود ہیں۔ ان عمارتوں میں وہ فارم ہاؤسز شامل نہیں جو اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (سی آئی ٹی) میں موجود ہونے کے باوجود سی ڈی اے سے منظور شدہ ہاؤسنگ اسکیموں میں شمار نہیں ہوتے۔
ان پرتعیش جائیدادوں سے سی ڈی اے کو سالانہ 50 کروڑ روپے لگژری ٹیکس کی شکل میں آمدن ہو سکتی تھی