ضیاء الحق شہید کے طیارے حادثے کی تحقیق کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے‘ محمد اعجاز الحق

پاکستان مسلم لیگ(ض) کے صدر‘ سابق وفاقی وزیر محمد اعجا ز الحق نے کہا ہے کہ سانحہ بہاول پور کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور استدعا کی جائے گی کہ عدالت عظمی اس سانحے کی تحقیقات کے لیے حکم جاری کرے انہوں نے یہ بات سترہ اگست کے سانح سے متعلق یو ٹیوب چینل ”نواز رضا کے ساتھ“ گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں اس سوال کے ساتھ اتفاق کیا کہ سترہ اگست 1988کا حادثہ ایک عالمی سازش تھی‘ جس میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید ہوئے یہ ایک ایسا حادثہ تھا کہ جس میں ملک کے سربراہ‘ آرمی چیف اپنے تیس عسکری ساتھیوں سمیت شہیدہوگئے‘ لہذا اس حادثے کی تحقیقات ہونی چاہئیے تھی اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بھی پاک ایئر فورس امریکی ایئر فورس کی مشترکہ رپورٹ کے مطالعہ اور جائزہ لینے کے بعد ہی کہا تھا کہ یہ حادثہ تخریب کاری ہے‘ لہذا یہ بات ثابت ہوجانے پر اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھیں اس حادثے سے قبل اس وقت کے وزیر داخلہ اسلم خٹک نے بھی جنرل ضیاء الحق سے احتیاط کرنے ک بات کی تھی کہ انہیں کچھ رپورٹس ملی تھیں کہ کچھ لوگ تخریب کاری کرسکتے ہیں‘ لہذا جنرل ضیاء الحق شہید سے کہا گیا تھا کہ وہ سفر میں اور خاص طور پر جہاز کے سفر میں احتیاط کریں‘ اسی لیے وہ ٹینکوں کے معائنے کے لیے بھی نہیں جانا چاہتے تھی تاہم بار بار اصرار کیے جانے پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس دورے کے یے رضا مند ہوئے‘ سترہ اگست کے حادثے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو ہم نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہمارے زور دیے جانے پر حکومت نے بندیال کمشن بنایا‘ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو پھر مطالبہ کیا گیا کہ تحقیقات کرائی جائیں ت انہوں نے شجاعت کمشن بنایا اس کے بعد جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں عدالتی کشمن بنایا گیا‘ اس کمشن نے طے کرنا تھا کہ تحقیقات کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے مگر اس کمشن کی رپورٹ ہی نہیں آسکی انہوں نے کہا کہ کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ اس حادثے کی تحقیقات ہونی چاہیے اگر نہ ہوئی تو پھر کوئی بھی اس طرح کے حادثے کا شکار ہوسکتا ہے‘ آپ دیکھیں کہ جنرل مشرف پر حملے ہوئے‘ شوکت عزیز پر حملہ ہوا‘ اس کی تحقیقات ہوئیں اور مجرم پھانسی پاگئے ہیں کیونکہ اس کی تحقیقات ہوئی ہے مگر سترہ اگست کے سانحے کا کور اپ اس قدر مضبوط تھا کہ چاہے وہ کوئی سوپر پاور تھی یا ملک میں ہی کوئی تھا‘ لہذا پوست مارٹم نہیں ہو‘ اور تحقیق بھی نہیں ہوئی‘ ایف بی آئی‘ جو دنیا بھر میں کہیں بھی امریکی کے مر جانے پر متحرک ہوجاتی ہے‘ اس نے اپنے نمائندے نہیں بھیجے‘ حالانکہ اس حادثے میں پاکستان میں امریکی سفیر رافیل اور ملٹری اتاشی بھی جان سے گئے تھے‘ مگر ایف بی آئی نے دس ماہ تک کوئی ٹیم نہیں بھیجی اور جب ٹیم آئی تو اس نے گونگلؤں پر سے مٹی اترانے مصداق کام کیا‘ بعد میں کچھ عرصہ کے بعد امریکی کانگریس میں ان کے سفیر نے بیان دیا کہ اس حادثے کی تفتیش اور تحقیقات کے لیے ٹیم نہ بھیجنے کے فیصلے کو اس وقت کے امریکی سیکرٹری دفاع نے ویٹو کیا تھا‘ یہ ایک عالمی سازش تھی اس لیے تو پوسٹ مارٹم نہیں ہوا‘ اور حادثے کی تحقیقات نہیں ہوئیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت سرکاری سطح پر تحقیقات نہیں ہوئی تھی تو عسکری سطح پر یہ کام ہونا چاہیے تھا‘ تاکہ پتہ چلایا جاتا کہ نرو گیس کہاں آئی؟ اور اکرم اعوان جسے گرفتار کیا گیا تھا اسے انویسٹیگیٹ کیا جاتا‘ بہر حال ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس حادثے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے‘ ہم نے اس بارے میں قانونی مشاورت کرلی ہے‘ ہم نے کسی پر الزام نہیں لگایا اور چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں اس سانحے کی تحقیقات ہونی چاہیے صدر جنرل ضیاء الحق اس ملک میں گیارہ سال تک فوجی حکمران رہے ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے کسی نے سوچا ہو ان سے جان چھڑائی جائے‘ لیکن ہم نے بیس اگست کو ان کے جنازے کے روز ایک نئے ضیاء الحق کو دیکھا‘ وہ سیاسی ضیاء الحق تھے ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور ان کی شہادت کے بعد ہم سے بار بار اصرار کیا گیا کہ ہم سیاست میں آئیں‘ اور جنرل ضیاء الحق کے پروگرام کو آگے بڑھائیں‘ جنرل ضیاء الحق شہید نے ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا‘ اور نیا کلچر دیا‘ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا‘ اور وسط ایشاء میں اسلامی ریاستیں بنیں‘شلوار قمیض‘ ویسٹ کوٹ اور شیروانی کو عزت دی‘ اور کسی کو یہ بات پسند ہو نہ ہو‘ نیوز کاسٹر کے سروں پر دوپٹہ دیا‘ حکومت میں رہتے ہوئے جنرل ضیا ء الحق اور نواز شریف کے مابین ایک سیاسی تعلق پیدا ہوچکا تھا‘1986 میں جب پیر پگارہ نے وزارت اعلی پنجاب سے انہیں ہٹانے کے لیے ایک مہم چلائی‘ چوہدری پرویز الہی بھی اس مہم میں شامل تھے‘ اس وقت یہ کہا گیا کہ ساید یہ کام جنرل ضیاء الحق کی مرضی اور منظوری سے ہو رہا ہے‘ پیر پگارہ نے بیان دیا تھا کہ بوری میں سوراخ ہوگیا ہے دانے اب گرتے رہیں گے لیکن جنرل ضیا ائلحق نے لاہور جا کر بیان دیا کہ انہں نے بوری سی دی ہے‘ اب دانے نہیں گریں گے‘ نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے اور ساتھ ہی ایک اور بات بھی کہہ دی جسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں کہ اور کہا کہ انہیں میری عمر بھی لگ جائے انٹرویو میں اپنے سیاسی سفر کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے انہں نے کہا کہ شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی شہادت کے بعد ملک میں انتخابات ہوئے‘ اس وقت ملک میں مسلم لیگ تھی اور دوسری جانب پیپلزپارٹی‘ بے نظیر بھٹو لندن سے جلاوطی کے بعد ملک واپس آچکی تھیں‘ اور پیپلزپارٹی ایک عوامی پارٹی کے طور پر سامنے آرہی تھی‘ مسلم لیگ اس کے مقابل تھی اس وقت نواز شریف میری والدہ کو ملے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے خاندان میں سے کسی فرد کو سیاست میں لائیں تو انہیں میری والدہ نے جواب دیا کہ آپ بھی میرے بچوں کی طرح ہیں آگے چلیں ہم آپ کو سپورٹ کریں گے انہوں نے کہا کہ میں سیاست میں 1990 میں آیا اور انتخابات میں حصہ لیا‘1988 میں آئی جے آئی کے پیلٹ فارم سے ملک بھر کے کم و بیش بیس بائیس حلقوں کے دورے کیے اور اس انتخابات میں وہ امیدوار بھی کامیاب ہوئے جن کے کامیاب ہونے کی امید نہیں تھی‘ آئی جے آئی کی قیادت مولانا سمیع ا لحق کے پاس تھی انہوں نے نواز شریف کے حق میں دستبرداری کی اور یوں آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف کو ملی سیاست میں آنے کا فیصلہ جب کیا تو اس وقت دو سیاسی جماعتیں تھیں ایک مسلم لیگ‘ اور دوسری پیپلزپارٹی‘ پیپلزپارٹی کے ساتھ تو ہمارے سیاسی اور نظریاتی اختلافات تھے‘ اس نے ملک دو لخت کیا تھا‘ لہذا اس کے ساتھ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اسی لیے مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا‘ 1990 سے1993 تک حکومت میں رہے‘1993 سے 1996 تک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ڈٹ کر اپوزیشن کی‘ اس دوران چار بار جیل بھی گئے‘ اور تحریک نجات میں بھی حصہ لیا‘ اور پہیہ جام ہڑتال میں بھی شریک رہے اور اس طرح سیاسی سرگرمیاں رہیں 1997 میں انتخابات ہوئے تو اللہ نے کامیابی دی‘ اس وقت بھی نواز شریف نے پہلے مرحلے میں کابینہ میں نہیں لیا تھا‘ انہیں اس وقت بھی یہی کہا تھا کابینہ میں لیں یا نہ لیں‘ آپ کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے‘ اس کے بعد ملک میں نواز شریف حکومت ختم ہوگئی اور اس کے بعد ملک میں 2002 کے عام انتخابات ہوئے اس وقت بھی میں نے مسلم لیگ(ق)‘ جسے کنگ پارٹی بھی کہا جاتا تھا‘ کے پلیٹ فارم کی بجائے مسلم لیگ(ض) کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور انتخابات میں اللہ نے کامیابی دی‘2007 میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے‘ ان دونوں جماعتوں نے کل جماعتی کانفرنس بلائی‘ مشترکہ سیاسی لائحہ عمل بنا کر چلنے کا سیاسی عہد کیا کہ اسٹبلشمنٹ کے بغیر سیاسی جدوجہد کی جائے گی لیکن بعد میں پیپلزپارٹی نے این آر او لیا‘ اور یوں کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں کی اہمیت نہ رہی‘ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف کے ساتھ ان کے سیاسی فاصلے ہیں بھی نہیں بھی ہیں‘2013 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ہم نے مرکز میں نواز شریف کو سپورٹ کیا‘ اور پنجاب اسمبلی میں ہمارے تین ارکان تھے‘ ہم نے دباؤ کے باوجود اس وقت شہباز شریف کو ووٹ دیا اور ہمارے تین ووٹوں کی وجہ سے اسد جونیجو اور مشاہد ہحین سید سینیٹر بنے‘ لیکن بعد میں کیا ہوا؟ بہاول نگر میں مسلم لیگ(ن) نے باہر سے ایک بندہ لاکر اسے پروٹوکول کے ساتھ بہاول نگر بھیجا‘ اورا سے میرے مقابلے میں امیدوار بنا دیا‘2018 میں اس حلقہ سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو کامیابی ملی