مسلم دنیا خاموش کیوں


عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب سے تعلقات کے معاملے پر پاکستان اس وقت عجیب کشمکش میں مبتلا

ہے۔ یو اے ای کے اسرائیل سے تازہ معاہدے نے پاکستان کے لئے حالات اور بھی گھمبیربنا دئیے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ بحرین سمیت چند دوسرے ممالک بھی یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے جا رہے ہیں۔عالمی سطح پر ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حالات کی کشیدگی کی وجہ سے بھی پریشان ہے۔مسلم دنیا اور خاص طورپر عرب ممالک کی کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر مجرمانہ خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔عرب ممالک کی خاموشی خاص طور پر ان ممالک کے لئے تکلیف دہ ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔پاکستان کے لئے یہ حالات زیادہ درد ناک ہیں کیونکہ پاکستان فلسطین کے مسئلے پر ہمیشہ اپنے اصولی مو قف پر قائم ہے کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ مسلم امہ کا ساتھ دیاہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ ٹی وی انٹرویو فلسطین کی حمایت میں ایک جراٗت مندانہ قدم ہے جو کہ وقت کی ضرورت تھااس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب مسلم دنیا کو بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جب کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے 1965ء کی جنگ ہوئی تو پوری مسلم دنیا پاکستان کی حمایت میں کھڑی تھی۔سعودی عرب،ایران اور انڈونیشیاء سمیت بہت سے عرب ممالک نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ پاکستان نے بھی 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ میں مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا۔1969ء میں رباط میں منعقد ہونی والی پہلی اسلامی کانفرنس میں بھارت کی شرکت پر جب پاکستان نے اعتراض اٹھایا تو ایران، اردن، ترکی، سمیت کئی ممالک نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا جس سے اندازہ ہوتا کہ عرب ممالک میں پاکستان کی کتنی عزت تھی۔اسی طرح جب 1974ء میں لاہور میں دوسری اسلامی کانفرنس ہوئی تو پوری مسلم دنیا نے اس میں شرکت کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستان کا اسلامی دنیا میں ایک اہم مقام ہے اور پاکستان ساری امت مسلمہ کی نمائندگی کر تا ہے۔ایک وقت تھا جب عرب ممالک میں ترقی نہیں ہوئی تھی۔اس وقت سارے عرب ممالک کا وجود ایک صحرا سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ نہ بڑے بڑے پلازے تھے، نہ سڑکیں اور نہ ہی ان ممالک کے پاس ترقی یافتہ فوج تھی۔اس وقت پاکستان نے ان ممالک کی ہر طرح کی ٹیکنیکل امداد کی اور انہیں تربیت یافتہ افرادی قوت فراہم کی۔پھر عرب دنیا میں تیل اور گیس کے وسیع و عریض ذخائر دریافت ہونے سے ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ سونے کے ذخائر دریافت ہونے سے دنیا عرب ممالک میں پیسے کی ریل پیل ہو گئی اور پوری دنیا میں عرب ممالک کی ایک خاص اہمیت پیدا ہو گئی۔اس کے برعکس پاکستان میں سیاسی مخاصمتوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔بھارت نے اس دوران عرب دنیا سے اپنے سفارتی تعلقات مضبوط بنائے حالانکہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات تھے اور ساری عرب دنیا کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو سفارتی تعلقات تھے اور نہ ہی وہ کسی دوسرے ملک کے اسرائیل سے تعلقات کو سپورٹ کرتے تھے۔اندرونی اور بیرونی معاملات میں مسلسل خرابیوں کی وجہ سے پاکستان تنہائی کا شکار ہوتا چلاگیا جس سے بھارت کو عرب دنیا میں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔ایک وقت یہ بھی آگیا کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا۔ملک کا وزیر اعظم ہی وزیر خارجہ تھا جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔اپریل 2018ء میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے غزہ میں قتل و غارت گری پر اسرائیل کے رہنما نیتن یاہوکو دہشت گرد قراد دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین کا علاقہ ناجائز طور پر غصب کر رکھاہے۔طیب اردوان کے اس بیان کا ہر اس ملک نے خیر مقدم کیا جو انسانیت اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنا جانتاہے۔جس طرح اسرائیل میں ظلم ہو رہا ہے بالکل اسی طرح کی قتل و غارت گری بھارت کشمیر میں کر رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ان کی حالت زار پر کوئی زبان نہیں کھولتا۔دنیا کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ دونوں ممالک یعنی اسرائیل اور بھارت غاصب اور قابض ہیں۔طیب اردوان کی طرح کشمیر پر کوئی بولنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹی وی ٹاک شومیں جو کہا وہ سعودی عرب کے خلاف نہیں تھا۔سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ ہر پاکستانی حرمین شریفین کے تقدس پر کٹ مرنے کو ہمہ وقت تیار رہتاہے۔وزیر خارجہ کی طرف سے سعودی عرب کو لیڈ رول اپنانے کی تجویز مثبت انداز میں لی جانی چاہیے۔پاکستان نے سعودی عرب کے کہنے پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے اجتناب کیا حالانکہ اس سے ہمارے تعلقات ترکی اور ملائیشیاء سے خراب ہو سکتے تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان سعودی عرب کو کتنی اہمیت دیتاہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ سعودی عر ب دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کو مزید سلجھائے گا اور امید کی جاتی ہے کہ سعودی عرب کشمیر کے معاملے پر کھل کر پاکستان کی حمایت کر ے گا۔اگر او آئی سی نے ابھی بھی کشمیر پر خاموشی اختیار کی تو پاکستان او آئی سی سے باہر اسلامی ممالک کے کسی اتحاد کی تشکیل میں حق بجانب ہو گا۔