جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مہنگائی اور اشیائے صرف و
خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا قانون سینیٹ میں جمع کرا دیا ہے۔بل نوٹس سمیت کل چھ صفحات پر مشتمل ہے۔
بل کے شروع میں لکھا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 37 (الف) اور 38 (الف)،
(ب) اور (د) کے مطابق عوام کی معاشی خوشحالی کو یقینی بنانا اور اس مقصد کے لئے مہنگائی اور اشیائے صرف کی قیمتوں کو
کنٹرول کرناوفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اس بل کا دائرہ کار وفاقی دارالحکومت ہے اور اس کا اطلاق مندرجہ اداروں اور افراد پر ہو گا۔
(الف) اشیائے صرف تیار، فروخت، سپلائی اور ذخیرہ کرنے والے تمام افراد اور ادارے۔
(ب)خدمات (بجلی، گیس، پانی، ٹیلی فون وغیرہ) فراہم کرنے والے سرکاری، نیم سرکاری ادارے اورکارپوریشنز۔
(ج)پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل و پٹرولیم مصنوعات سے متعلقہ ادارے۔
(د) پروفیشنل خدمات فراہم کرنے والے تمام افراد و ادارے۔
(ر)رئیل اسٹیٹ سے وابستہ تمام سرکاری،نیم سرکاری و پرائیویٹ ادارے۔
(س)ہوائی، ریل، روڈٹرانسپورٹ و دیگر ذرائع سے سفری سہولتیں فراہم کرنے والے سرکاری، نیم سرکاری و پرائیویٹ ادارے و کارپوریشنز۔
یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ قانون بننے کے بعد ہر ادارے کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ قیمتوں میں کم از کم 30 فی صد تخفیف کو یقینی بنائے اور تخفیف شدہ قیمتیں کم از کم تین سال کے لئے منجمد کردی جائیں گی۔ نیز افراط زریا دیگر وجوہات کی بناء پر ہونے والے کسی بھی اضافہ کا اثر عوام پر نہیں ڈالا جائے گا اور اس طرح کے اضافہ کو مرکزی حکومت سبسڈی، خصوصی گرانٹ یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے خود برداشت کرکے صارفین کے لئے یکساں قیمت پر فراہمی کو یقینی بنائیں گی۔
اسی طرح بجلی، گیس، پانی، ٹیلی فو ن، ہوائی، ریل،روڈ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے والے ادارے،
کارپوریشنز اس قانون کے نفاذ سے ایک مہینہ کے اندر اندر اپنے ٹیرف میں 30 فی صد کمی کرکے اپنی نئی
قیمتیں جاری کریں گی اور تخفیف شدہ شرح کے مطابق اپنے بل وصول کریں گے۔
قیمتوں میں کمی کو یقینی بنانے کے لئے خدمات فراہم کرنے والے ادارے اپنے انتظامی مصارف میں کمی
کریں گے۔
وفاقی حکومت خدمات پر عائد شدہ سیلز ٹیکس و دیگر حکومتی واجبات ختم کردے گی، جس کا فائدہ صارفین کو دیا
جائے گا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی با اختیار کمیٹی قائم کی جائے گی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے صرف عالمی منڈی میں غیر معمولی اضافے کے موقع پر ہی
نظرثانی کی جائے گی۔ البتہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے فوائد عوام تک پہنچانے کے لئے ایک
خود کار نظام وضع کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیاں مشترکہ کارروائی کے ذریعے مختلف ترقیاتی ادارو ں اور ہاؤسنگ اسکیموں میں پلاٹوں کی قیمتوں کے تعین کا فارمولہ طے کرے گی اور فارمولہ کے مطابق قیمتوں کا تعین اور اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔
بل میں مزید تجویز کیا گیا ہے کہ تحفظ صارفین کونسل قائم کی جائے گی۔
تحفظ صارفین کونسل میں زندگی کے ہر شعبے کی نمائندگی ہوگی۔تحفظ صارفین کونسل کی تشکیل اور قانونی حیثیت
کے بارے میں الگ سے قانون سازی کی جائے گی۔
صارفین کونسل درج ذیل ذمہ داریا ں ہونگی۔صارفین کو اشیاء و خدمات کے معیار، مقدار یا تعداد، اثرپذیری،
خالص پن اور قیمت کے بارے میں معلومات مہیا کرنا۔
مسابقتی قیمتوں پر زیادہ سے زیادہ نوع کی اشیاء تک عام صارفین کی رسائی ممکن بنانا۔اشیائے صرف کی
قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کے لئے مناسب اقدامات کرنا۔صارفین کے مفادات کے منافی غیر مناسب تجارتی
رویوں کے خلاف صارفین کو تلافی دلوانا۔بنیادی اشیائے صرف کی بأسانی دستیابی ممکن بنانا۔
سینیٹر سراج الحق نے اس بل میں تجویز کیا ہے کہسرکاری ملازمین، صنعتی کارکنوں، کھیت و بھٹہ مزدوروں و دیگر کی تنخواہوں و پنشنروں کی پنشن میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق ہر سال خود بخود اضافہ کیا جائے گا۔یہ اضافہ بنیادی تنخواہوں کا حصہ بنایا جائے گا۔
بل میں ایکٹ کے نفاذ کا طریقہ کارکا تجویز کیا گیا ہے کہ
(i) شکایت کنندہ سیشن کورٹ میں درخواست جمع کرائے گا۔
(ii) غیر منصفانہ تجارتی رویوں کے حوالے سے صارفین کونسل بھی سیشن کورٹ میں شکایت درج کراسکتی ہے۔
(iii) شکایت درج ہونے کی صورت میں عدالت نوٹس جاری کرے گی،جس کے مطابق اُس شخص کو، جس کے خلاف شکایت درج کروائی گئی ہے، سات دن کے اندر اندر جواب دینا ہوگا۔
(iv) شکایت اور موصول ہونے والے جواب اور فریقین کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دینے کے بعد یا اگر کوئی جواب موصول نہیں ہوتا تو عدالت مناسب تفتیش کے بعد صورتحال کا جائزہ لے کر کوئی حکم نامہ جاری کرسکتی ہے۔
اس بل میں صارفین کو دئیے گئے حقوق کی پامالی پرکم ازکم دو سال تک سزائے قید یا پانچ لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔
سینیٹر سراج الحق نے اس قانون کے پیش کرنے کی وجوہات میں لکھا ہے کہ
اشیائے ضروریہ میں آئے روز بے تحاشہ، غیرضروری اور غیرمنصفانہ اضافے نے جہاں ایک طرف روزمرہ اشیائے ضرورت کو عام آدمی کی پہنچ سے دور تر کردیاہے وہاں ناانصافی پر مبنی مہنگائی کے اس طوفان کے نتیجے میں افراطِ زرمیں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں سے شدید متأثر غریب اورمتوسط طبقہ اپنی خوراک، رہائش اور بود و باش سے متعلق ضروریات کو اپنی انتہائی محدود آمدنی کیساتھ پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
روپے کی قدر میں خطرناک حد تک گراوٹ غریب عوام پر بم گرانے کے مترادف ہے۔
اس وجہ سے تنخواہ دار طبقہ باالخصوص ملازمت پیشہ افراد تو مہنگائی کے اس طوفان کامقابلہ کرنے کی سکت کھوبیٹھے ہیں۔قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے۔پنشنرز کی پنشن کی قدر بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔خصوصا خواتین کے لیے جنہوں نے گھر کے چولہے کو جلانا ہوتا ہے،ان کے کچن چلانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
ایسا قانون منظور کیا جائے جس کے ذریعے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں اور افراد کو پابند بنایا جائے کہ وہ لوٹ کھسوٹ کم کرکے عوام کو ریلیف دیں۔
ان حالات میں وفاقی حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی لھذا ضروری ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عوام الناس کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے ایسی قانون سازی عمل میں لائی جائے جس کے نتیجے میں عام آدمی کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کا حصول آسان بنایاجائے تاکہ وہ عزت و وقار کیساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے۔
اس بل کا مقصد ملک کے غریب عوام پر سے مہنگائی کے بوجھ کا خاتمہ اور ان کے لئے سستے داموں اشیائے صرف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ نیز مستقبل میں بھی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کا سدباب کرنا اور صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
یاد رہے کہ چونکہ حکومت کا مارکیٹ میں قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے اسی وجہ سے ناجائز منافع خوری عروج پر ہے اور صارفین کو بلاجواز اور غیر قانونی طور پر لوٹا جارہا ہے۔اس قانون کے ذریعے وفاقی حکومت کو نظام کو بہتر بنانے کا موقع ملے
گا۔