محمد نعمان سہگل
مجید اچکزئی کیس کا فیصلہ جہاں ہمارے لیے حیران کن اور افسوس ناک ہے‘ تاہم اس فیصلے نے ملک میں پولیس کے تفتیشی عمل میں بہتری لانے کی اہمیت اور بڑھادی ہے کہ تفتیشی عمل اگر قانون کے عین مطابق ہوگا‘ اور غیر جانب دار ہوگا تب ہی کوئی عدالت رو برو پیش کی جانے والی شہادتوں کی روشنی میں قانون کے مطابق انصاف پر مبنی فیصلہ دے سکتی ہے‘ یہاں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مقدمہ کسی بھی نوعیت کا ہو‘ مدعی کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ انصاف لینا چاہتا ہے تو پھر اسے ہر لمحے پر تفتیشی عمل پر نظر رکھنا ہوگی‘ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں‘ اور چونکہ حکومت میں بھی رہا ہوں‘ مختلف پورٹ فولیو کے ساتھ کام کیا ہے‘ میری رائے ہے کہ مدعی کے لیے انصاف کی کوشش پولیس کا بھی فرض ہے اور ملک میں ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ اگر کوئی مدعی معاشرے میں کمزور ہو‘ غریب ہو‘ بے بس اور بے سہارا ہو تو حکومت اس کیس میں اس کی جانب سے کیس میں ممدعی بنے اور اسے انصاف دلائے ایسے کیس کے لیے قانون سازی کے وقت میرٹ کا تعین ماہر قانون‘ سماجی امور کے ماہرن کے ساتھ مل کر کیا جاسکتا ہے‘ ہم سمجھتے ہیں اور ہم میں ہر کوئی اس بات کی حمائت اور تائید کرے گا کہ انصاف کی فراہمی معاشروں کو ترقی یافتہ بھی بناتی ہے اور ریاستوں کو مضبوط بھی بناتی ہے‘ مجید چک زئی کیس اب ہمارے سامنے ہے‘ ہامرین قانون اور سماجی امور کے ماہرین کو چاہیے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ابھی سی سر جوڑ کر بیٹھیں اور قانون سازی کرنے میں حکومت کی مدد کریں‘ رہ گئی بات اس عظیم شہری کی‘ جو پولیس کانسٹیبل کی ڈیوٹی دے رہا تھا اور ویڈیو کلپس سے ملنے والے شواہد کے مطابق گاڑی کی ٹکر سے زخمی ہوا اور بعد میں دم توڑ گیا‘ اس کے لواحقین کی دیکھ بھال حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے‘ کیونکہ یہ شہری تین سال قبل ہونے والے ایک ہٹ اینڈ رن واقعے میں جان کی بازی ہار گیا تھا اب ایک مقامی عدالت نے فیصلہ دیا ہے اور بلوچستان کے سابق قانون ساز مجید خان اچکزئی کو اس کیس میں بری کردیا یہ فیصلہ ایک ماڈل عدالت نے دیا‘ماڈل عدالت کے جج دوست محمد مندوخیل نے صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین کو عدالت کے روبرو پیش کی جانے والی شہادتوں کی بنیاد پر ہی بری کیا ابھی تک عدالت کا تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا ہے‘ تفصیلی فیصلے میں عدالت ضرور اپنے فیصلے کی وجوہات بیان کرے گی اور تفصیلی فیصلہ پڑھ ہی اندازہ ہوگا کہ اس کیس میں عدالت کو کس معیار کی شہادت چاہیے تھی‘ یہ واقعہ جون 2017 میں ہوا کوئٹہ کے جی پی او چوک پر تیز رفتار گاڑی نے ٹریفک وارڈن حاجی عطا اللہ سے ٹکرائی اور پھر بھاگ گئی مگر اس وقت مجید اچکزئی کو بھاگتے ہوئے گرفتار کیا تھا، وارڈن کو شدید چوٹیں آئیں اور بعد میں اسپتال میں دم توڑ گیا‘ کیس کی ہسٹری یہ بتاتی ہے کہ ابتدائی طور پر پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف حادثہ کا مقدمہ درج کرلیا۔ لیکن اس حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اور ٹی وی چینلز کے ذریعہ بار بار دکھائے جانے کے بعد، بلوچستان پولیس نے سابق ایم پی اے کے خلاف قتل عام کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا‘ قانون بعد میں پیدا ہونے والی سوچ کا کسی بھی مقدمے میں ساتھ نہیں دیتا ہے کچھ عرصہ کے بعد انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت (اے ٹی سی) نے چھ ماہ بعد ہی ضمانت دے دی تھی اور اس کے بعد ہی مجید اچکزئی رہا تھے فیصلے کے روز مجید اچکزئی جج کے فیصلے کے اعلان کے بعد عدالت میں پیش ہوئے‘ قانون یہ کہتا ہے کہ فوجداری مقدے میں یا کسی ایسے مقدمے میں جس میں سزا دی جانے کی دفعات ہوں‘ ملزم کی موجودگی میں فیصلہ سنایا جاتا ہے‘ عدم موجودگی میں فیصلہ سنانے کا مقصد انصاف کے تقاضوں کے برعکس سمجھا جاتا ہے‘ بہر حال اب ہم سب کی ذمہ داری کہ وہ غریب ٹریفک کانسٹیبل‘ جس کی جان چلی گئی‘ حکومت اور معاشرہ اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے کیونکہ واقعہ کے حقائق کچھ اس طرح سے بیان کیے جارہے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد دہشت گردی کے الزامات سابق قانون ساز کے خلاف درج پہلی انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں شامل کیے گئے تھے۔تاہم کوئٹہ کی ایک عدالت نے ان کی اپیل پر دہشت گردی کے الزامات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کیس کو ماڈل عدالت میں منتقل کردیا گیا تھا۔اس واقعے کے بعد اچکزئی کچھ ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے تھے اور کچھ جواز فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے حادثہ پیش آنے پر گاڑی چلانے کا اعتراف کیا تھا اور قبائلی روایات کے مطابق اس معاملے کو متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے حل کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا