مولانا مودودی ایک تاریخ‘ ایک تحریک


مولانا واقعی ایک تحریک تھے اور ہیں آج انہیں یوم وفات کی منسبت سے خراج عقدت پیش کیا جائے گا‘ لیکن کچھ والات بھی ذہن میں رکھے جائیں کہ جس تحریک کی بنیاد وہ رکھ کر گئے ہیں کیا وہ بنیاد اسی طرح قائم ہے؟ یا اس میں کچھ ترمیم اور تبدیلی آچکی ہے؟ ان کی زندگی تک یا ان کی امارت کے دوران کبھی یہ نعرہ نہیں لگا تھا کہ مودودی کا ساتھ دو‘ مودودی پکار رہا ہے‘ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ جماعت اسلامی کا ساتھ دو‘ وہ دعوت کے لیے اللہ اور رسول ﷺ کو معیار بنا کر آگے بڑھتے رہے اور جنرل ایوب خان کو بھی اس کی مرضی کا فتوی نہیں دیا‘ اس سے مرعوب نہیں ہوئے‘ مصلحت اختیار نہیں کی‘ اس کے اقتدار کی جانب نہیں دیکھا‘ اس کی سیاسی طاقت کو ذہن میں جگہ دیے بغیر وہی بات کی جو قرآن اور رسول ﷺ کی ہدائت اور تعلیمات کے قریب تھی‘ مولانا کی تحریروں‘ ان کی تقریروں کو دیکھا‘ پڑھا اور دہرایا جائے تو آج بھی جماعت اسلامی کو روشنی مل سکتی ہے انہوں نے اپنی ذات کی جانب نہیں‘ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب بلایا‘ ان کے خطبات اٹھا کر دیکھ لیے جائیں سب کچھ واضح ہوجاتا ہے‘26اگست 1941ء کو لاہور میں پورے برصغیر پاک و ہند سے کچھ لوگ جو پہلے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر تھے اور ماہنامہ ترجما ن القرآن کے ذریعے ان کے افکار و نظریات اور ان کی ذات گرامی سے بخوبی واقفیت بھی رکھتے تھے ٗ ان کی دعوت پر جمع ہوئے اور”جماعت اسلامی“ کے نام سے ایک مختصر سی نئی جماعت وجود میں لائے۔ اس جماعت کی پشت پر وہ فکری رہنمائی تھی جو کئی سال سے مولانا مودودیؒ انفرادی طور پر فراہم کر رہے تھے اور جس میں خود علامہ اقبال مرحوم کے مشورے بھی شامل تھے۔ مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبال ؒ کے درمیان گہرا تعلق اس امر سے واضح ہوجاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے نزدیک ”دارالاسلام“ کے نام سے جماعت اسلامی کا جوپہلا مرکز قائم ہوا، اس کے لیے زمین علامہ اقبالؒ کے توسط سے فراہم ہوئی تھی۔ تارٌک کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زمین علامہ اقبال ؒ کو اس وقت پنجاب کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی نے اس مقصدکے لیے پیش کی تھی کہ اس پر دین کا کام کرنے کے لیے کوئی مرکز بنائیں علامہ اقبال ؒ نے اس کام کے لیے مولانا مودودیؒکا انتخاب کیا اور ان کو دعوت دی کہ وہ اس پر ایسا مرکز بنائیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو نہ تو کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی انکار کرسکتا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ان تمام اعتراضات اور الزامات کی بھی تردید کردیتی ہے جو پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ پر لگائے جاتے ہیں۔ مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ نے خود پورے برصغیرہند و پاک میں مولانا مودودیؒ کو اس قابل سمجھا کہ وہ ایک ایسی بستی اور مرکز کی بنیاد رکھیں جہاں سے برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی ٹھیک اور درست رہنمائی ہوسکے۔ وہ زمین تو اب ہندوستان میں متروکہ املاک میں شامل ہے لیکن وہ لوگ جنھوں نے یہ زمین دی تھی وہ اب بھی جماعت اسلامی کے زیر انتظام ادارہ دارالاسلام جوہر آباد سے وابستہ ہیں اور جماعت کا ان کے ساتھ رابطہ اور تعلق بھی قائم ہے۔ جماعت اسلامی کی تنظیم کیوں قائم کی گئی۔ اس کی کیا ضرورت تھی جبکہ اس وقت مسلم لیگ اور مسلمانوں کی دیگر جماعتیں پہلے ہی سے موجود تھیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کوئی ایسے آدمی نہیں تھے کہ محض ایک اضافی جماعت بنانے کے لیے یا اپنی لیڈر شپ چمکانے کے لیے ان کو کسی نئی جماعت کی ضرورت پڑتی۔ انھوں نے ترجمان القرآن میں تفصیل کے ساتھ وہ وجوہات اور اسباب بیان کردیے تھے جس کے نتیجے میں وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک ایسی نئی جماعت کی ضرورت ہے جو ان مقاصد کی حامل اور اس طریق کار پر کاربند ہو جیسی اللہ کے حکم پر حضور نبی کریم انے صحابہ کرامؓ کی معیت میں بنائی تھی، جس کے نتیجے میں ایک انقلاب برپا ہوا تھا اور اس کی متابعت میں آج کوئی ایسی جماعت موجود نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس امت کے آخر میں بھی اصلاح اسی طریقے پر ہوگی جس طریقے سے اس امت کی اصلاح ابتداء میں ہوئی تھی۔ حضورنبی کریم انے جن مقاصد کے لیے اور جس طریق کار کی بنیاد پر جماعت بنائی تھی آج انھی مقاصد کے لیے اور اسی طریق کار کی بنیاد پرجو جماعت بنے گی تو ہی امت کی اصلاح ہوسکے گی۔ اللہ اور اس کے رسول انے امت کی جو ذمے داری بیان کی ہے اس کے لیے امت کو دوبارہ مجتمع اور متحد کرنا ناگزیر ہے اور اس کے لیے ایک منظم جماعت کی ضرورت ہے جس کی وضاحت مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تاسیس جماعت سے پہلے کردی تھی۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ مولانا مودودیؒنے اپنی طرف سے کوئی نئی فقہ نہیں دی ہے بلکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں امت مسلمہ کو ایک مقصد کی طرف متوجہ کیا ہے۔ تاہم بعض لوگوں نے انھیں بھی علامہ اقبال کی طرح موضوع تہمت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
علامہ نے اپنی ایک فارسی نظم میں بحضوررحمت اللعالمین ا فریاد کی ہے کہ
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بہ حرفم غیر قرآں مضمر است
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پاکن مرا۔
”میری زبان‘ میرے کلام اور میری فکر میں اگر قرآن کے علاہ کوئی چیز چھپی ہوئی ہے تو مجھے روز محشر خوار و رسوا کردے اور اپنے بوسہ پاسے بے نصیب کردے۔“
علامہ اقبالؒ اپنی اس طویل نظم میں حضور اسے یہ فریاد بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے تو مسلمانوں کو حق پیش کیا ہے اور تیری طرف بلایا ہے اور تیرے ہی سامنے ان کے جملہ امراض کو پیش کرکے اس بیمار اور مریض کو تیرے حضورلا کر اس لیے پیش کیا ہے کہ آ پ اس کاعلاج کردیں
اپنے لیے دعا کی کہ
عرض کن پیش خدائے عزو جل
عشق من گرد د ہم آغوش عمل
”خدائے عزو جل کے حضورمیرے حق میں دعا کیجیے کہ اللہ، اس کے رسول ؐاور اس کے دین کے ساتھ میرا جو عشق اور محبت ہے تو وہ میرا عمل بھی اس کے مطابق کردے۔“
علامہ اقبال ؒ کو حضورنبی کریم اکے ساتھ عشق تھا۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کو وہ جانتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ امت کی اصلاح قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہی ہوسکتی ہے۔ امت کی اصلاح کے اس کام کے لیے جن افراد اور مردان کارکی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہیں تھے۔ مولانا مودودیؒکے پاس بھی ایسے مردان کار نہیں تھے۔ فرد واحد کے لیے یہ بہت ہی بڑا مشکل کام تھا۔ تن تنہا بالکل ابتداء سے ایک کام کا آغاز کرنا جو ئے شیرلانے کے مترادف تھا۔ کام کی ابتداء کے لیے بلند ہمتی کے ساتھ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پہلی اینٹ رکھی۔
پورے برصغیر ہندو پاک سے پچھترآدمی اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے چندایک جید علماء تھے جو اپنے علم اور تقویٰ میں ممتاز تھے، چند ایک اچھے اور مخلص لوگ تھے اور کچھ ان میں عام لوگ تھے جو مولانا مودودیؒکی تحریروں سے متاثر ہو کر آئے تھے۔ ان تھوڑے سے لوگوں نے جو غریب تھے انتہائی قلیل سرمائے سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اس جماعت کا کوئی عقیدہ اور کوئی مقصد اپنی طرف سے پیش نہیں کیا بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں جماعت کے عقیدے اور مقصد کا تعین کیا جو جماعت اسلامی کے دستور میں پوری تشریح کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ ہمارا عقیدہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ ہوگا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو اللہ رب العالمین نے سکھایا ہے اور حضورنبی کریم انے امت کے ہرفرد کو اس کی تعلیم دی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنے عقیدے کے بارے میں وہی بتایا جس پر تمام امت کو مجتمع اور متحد کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امت کا بنیادی عقیدہ صرف لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ ہے جس پر پوری امت کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تشریح وہی معتبر اور درست ہے جو قرآن اور سنت میں کردی گئی ہے۔ عقیدے کی من مانی تشریحات ہی کے نتیجے میں اختلافات رونما ہوئے ہیں۔
کتاب و سنت کے مطابق عقیدے کی تفصیلی تشریح کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒنے یہ بھی بتایا کہ جماعت اسلامی کا مقصد حقیقی کیا ہے؟انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا مقصد صر ف اللہ رب العالمین کی رضا کا حصول ہے۔ ہماری ساری جدوجہد اس لیے ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور آخرت میں ہمیں فلاح اور کامیابی نصیب ہو

اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی فلاح کے حصول کے لیے وہی طریق کار اپنا نا ہوگا جو حضورنبی کریم ا نے اپنایا تھا۔ اس طریق کار کی نشاندہی جماعت اسلامی نے واضح طور پر کردی ہے کہ دعوت صرف دعوت الی اللہ ہوگی۔ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں گے۔ مولانا مودودی،ؒجماعت اسلامی یا کسی بھی حزب‘ امیرجماعت یا کسی بھی شخصیت کی طرف نہیں بلائیں گے
بنیادی طور پر دعوت الی اللہ کے لیے یہ جماعت بنائی ہے، جماعت بذات خود مقصود نہیں ہے بلکہ دعوت الی اللہ کے اصل مقصود کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ علمائے کرام کے درمیان اس موضوع پر بڑی بحث و تمحیص ہوئی ہے کہ دعوت الی اللہ کے لیے کوئی جماعت بنانی درست ہے یا امت کا ہر فرد اس کام کو انفرادی طور پر انجام دے۔آخرکار سیدمودودیؒ اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی گروہ کو منظم کیے بغیر دعوت کا یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ اس کے لیے بہرحال ایک گروہ کومنظم اور تیار کرنا ناگزیر ہے لیکن ساتھ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا کہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے تشکیل پانے والی کوئی بھی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرے گی کہ اس میں شامل نہ ہونے والے لوگ غلط راستے پر ہیں۔ چونکہ ایک منظم جماعت کی شکل میں دعوت الی اللہ کا کام کرنا حضورنبی کریم ا کا طریقہ ہے چنانچہ اسی طریقے سے امت کی اصلاح کے لیے ہم جماعت کی صورت میں اکٹھے ہوئے ہیں۔جن کو ہم سے اتفاق ہو وہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں اور جن کو ہم سے اتفاق نہ ہو انھیں چاہیے کہ وہ دعوت الی اللہ کے کام کو انجام دینے کے لیے بہرحال ایک اجتماعی اور منظم طریقہ اختیار کریں
جماعت اسلامی نے کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق جو عقیدہ،مقصد اور طریق کار اختیار کیا ہے اسی کے تحت وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتی ہے۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیتے ہیں حضورنبی کریم ا کے طریقے کے مطابق جماعت ان کی فکری اور عملی تربیت اور ان کا تزکیہ نفس کرکے ان کے اندر سے نفاق‘ تناقص اور دورنگی کو ختم کرنے اور اسلام کے انسانِ مطلوب کے اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح ان کی سیرت سازی کرکے انھیں ایک ایسے منظم گروہ میں ڈھال دیتی ہے جو معاشرے کی اصلاح کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔ اسی منظم گروہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد بھی جاری رکھی گئی ہے تاکہ اقتدار کی باگ ڈور غلط لوگوں سے اچھے لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے جماعت اسلامی کی تشکیل کے موقع پر وقت کے علمائے کرام کو بھی شریک مشورہ رکھا گیا تھا۔ تاسیس جماعت سے پہلے علامہ اقبالؒبھی مشورے میں شامل رہے ہیں۔ ابتدائی ارکان جنھوں نے جماعت کی تاسیس میں حصہ لیا تھا، ان میں دو بہت بڑے نام ہیں اگرچہ وہ بعد میں جماعت میں نہ رہے لیکن وہ جماعت اسلامی کی تشکیل میں نہ صرف شریک مشورہ رہے ہیں بلکہ جماعت کا دستور بھی ان ہی کے مشوروں سے بنا۔ اس میں ایک نام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒکا ہے جو مولانا مودودیؒ کی طرح سارے عالم اسلام اور پورے عالم عرب میں ایک معروف شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کتابوں کو پورے عالم اسلام میں قبولیت عامہ حاصل ہے۔ دوسرا نام مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کا ہے جو ایک سو سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے صاحب تصنیف عالم دین تھے اور علماء کے تمام گروہ ان کا احترام کرتے تھے جماعت کے دستور میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ معیار حق صرف اللہ اور اس کا رسول ؐ ہے، باقی ہر ایک کے قول اور فعل پر کتاب و سنت سے دلیل مانگی جائے گی تو اس سے ہمارا مطلب یہی ہے کہ کسی کی بھی غیر مشروط پیروی کے ہم پابند نہیں ہیں۔ مولانا مودودی ؒ بھی…………