سی ڈی اے شہر کی ترقی، صفائی ستھرائی اور سماجی خدمات کے لیے اپنی شہرت تیزی سے کھو رہا ہے، پورے شہر میں صفائی کا نظام ابتر ہوچکا ہے، بیشتر رہائشی سیکٹرز میں سیوریج کا نظام کام چھوڑ چکا ہے اور گندا پانی بہتا رہتا ہے اور شہر کی بیشتر سڑکوں کے کنارے غیرقانونی سروس اسٹیشن کام کر رہے ہیں جن کے ذریعے پینے کا پانی گاڑیاں دھونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، پمز کے سامنے سروس اسٹیشن اس ضمن میں ایک مثال ہے۔ اسی وجہ سے پینے کے
پانی کی قلت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ جسارت کے سروے کے مطابق بلیو ایریا کے علاوہ جی نائن کراچی کمپنی، آب پارہ سمیت شہر کی مارکیٹوں میں تجاوزات کی بھر مار ہے اور یہاں قائم درمیانے درجے کے ڈھابے اور فضل حق روڈ بلیو ایریا میں قائم چھوٹے ہوٹلز گندگی پھیلانے میں معاون بنے ہوئے ہیں، ان ہوٹلز میں کووڈ 19 کی وبا سے بچائو کے لیے انتظامیہ کی جانب سے آگاہی مہم کی پابندی کی بھی پروا نہیں کی جارہی۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد اور سی ڈی اے میں کام کی غرض سے جانے والے سائلین کی یہ شکایات بھی عام ہوتی جارہی ہیں کہ ان کے جائز کام بھی نہیں ہو رہے ،ہر کام گو سلو کی نذر ہوجاتا ہے۔ سائلین کے مطابق چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی اچھی شہرت کے دیانت دار افسر ہیں، سی ڈی اے کے عملے کو انہی کی طرح کام کرنا چاہیے مگر سی ڈی اے میں شہریوں کی شکایات دور کرنے کے لیے ان کی ہر کوشش یہاں کی انتظامیہ اور افسر شاہی ناکام بنا رہی ہے۔ چیئرمین سی ڈی اے کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں آنے والے انتظامی امور کی کڑی نگرانی کریں تاکہ مسائل حل ہوں، جس روز انہوں نے سی ڈی اے کے شعبہ جات کا غیر اعلانیہ دورہ کیا، اسی روز ان کے سامنے سی ڈی اے کے عملے کی کارگزاری پوری طرح کھل جائے گی، شہریوں نے شکوہ اور گلا کیا ہے کہ اسلام آباد جس کی صفائی ستھرائی کی مثال دی جاتی تھی ، ملک کا گندا ترین شہر معلوم ہوتا ہے، حتیٰ کہ سیکٹرز میں سڑکوں پر گدھا گاڑیوں کی بھی اجازت ہے، جس سے سڑکیں گندی رہتی ہیں، رہائشی سیکٹرز میں تجاوزات عام ہوتی جارہی ہیں اور بلیو ایریا جیسے علاقے میں گرین بیلٹ کار پارکنگ کی وجہ سے تباہ ہوتی جارہی ہے، یہ شکایت ان دنوں عام ملتی ہے کہ اوور سیز پاکستانیز نے یہاں جو پلاٹس خریدے تھے ان کی منتقلی کا عمل مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔ سائلین کی شکایت ہے کہ دفتر کے اوقات میں ہی کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، دفتر کے اوقات کے بعد یہاں کام کے ماحول کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
