میاں منیر احمد
ممتاز اخبار نویس سید سعود ساحر کے انتقال کو ایک سال ہوگیا ہے، مرحوم بے شمار اور بہت ہی اعلی خوبیوں کے مالک تھے، اللہ ان کی قبر نور سے بھر دے، آمین، وہ یہی دعاء ہر مرحوم کے لیے کرتے تھے، ساری زندگی وہ متحرک رہے، کبھی سر میں درد کی بھی شکائت نہیں کی، زندگی کے آخری ایام میں وہ کرونا کے باعث گھر سے نہیں نکلے، اور اسی دوران علیل ہوکر اللہ کے حضور پیش ہوگئے، قومی صحافت میں انہیں ایک پرجوش اور باکردار شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا، کم و بیش وہ پچاس سال صحافتی دنیا میں رہے، اورصحافت کے ہر شعبہ میں کام کیا، وہ بہت ہی اعلی پائے کے جرائت مند اخبار نویس تھے آج ملکی صحافت میں ان جیسا کردار نہیں ملتا، وہ ذاتی زندگی میں اپنے بچوں سے پیار کرنے والے والد اور اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں سے پیار کرنے والے دادا اور نانا تھے، محنت اور لگن سے اپنا مقام بنایا، راولپنڈی پریس کلب کے صدر رہے، اخبار نویسوں کی تنظیم پی ایف یو جے(دستور) کے بھی سرخیل رہے،بطور روزگار صحافت ان کی پہلی چوائس نہیں تھی‘ 22 فروری1958میں صحافت کے دشت میں قدم رکھا‘ پھر ملکی صحافت کی پہچان بن گئے‘ ریاست نے ان کی صحافتی خدمات پر انہیں تمغہ صدارتی حسن کارکردگی عطاء کیا، پچاس سالہ صحافتی خدمات کے دوران ان کی نجی زندگی متاثر ہوئی، اور یہ ہر اس شخص کے ساتھ ہوتا آیا ہے جو اپنے کے لیے کم اور دوسروں کے لیے ذیادہ جیتاہے، ان کا آبائی وطن سہارن پور تھا لیکن پاکستان سے وابستگی انہیں یہاں کھینچ لائی، ان کے والد سید داؤد احمد نے انگریز کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد میں سید عطا اللہ شاہ بخاری کی مجلسِ احرار الاسلام سے وابستگی اختیار کی 1939ء میں دہلی میں احرار کے اجتماع پر گولی چلی تو سید داؤد بھی زد میں آگئے اور زخمی ہوئے‘ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا‘ پاکستان بنا تو والدہ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ سہارنپور سے ہجرت کی راولپنڈی ان کا نیا مسکن تھا‘ تب ان کی عمر نو‘ دس سال تھی‘ حکیم محمود احمد سروسہارن پوری ان کے بڑے بھائی تھے جنہیں وہ ابا کہتے تھے، اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان کے لیے ہجرت کی اور بلاشبہ وہ پاکستان کے وفاداروں میں شمار کیے جاتے ہیں اپنی بساط کے مطابق وطن کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے، وہ اپنے دبنگ لہجے، پیشہ ورانہ جستجو اور بے ساختہ پن کی وجہ سے بھلائے نہیں جا سکتے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور نوجوان اخبارنویسوں کو ان جیسی پیشہ وارانہ لگن جرائت اور بے باکی عطا کرے‘کسی شعبے سے تعلق رکھنے والے بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اُس شعبے کا حوالہ بن جاتے ہیں سعود ساحر بھی ایک ایسا ہی نام تھے انہوں نے صحافت جس دور میں شروع کی وہ عملاً ایک مشکل دور تھا‘ تب انٹر نیٹ تھا اور نہ صحافیوں کے پاس آج کی طرح سواری ہوتی تھی ای میل تو کیا الیکٹرانک میڈیا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا ان حالات میں کام کرنا مشکل بھی تھا اور دشوار بھی، لیکن اسی دور میں سعود ساحر نے خبر تلاش کی اور نام کمایا‘ہمیشہ یہ دعاء کرتے کہ اللہ انہیں چلتے ہاتھ پاؤں اٹھالے‘ یوں ان کی یہ دعاء قبول ہوئی اور وہ کسی کو تکلیف دیے بغیر نفس مطمئن کی طرح دنیا سے رخصت ہوگئے‘ہر روز ان کے ساتھ ملاقات معمول تھا، میلوڈی مارکیٹ‘موئتمر عالم اسلامی کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنا ان کا معمول تھا‘موئتمر عالم اسلامی کی مسجد میں نماز کے بعد راجا محمد ظفر الحق کے دفتر میں چھوٹی سی مجلس لگتی تھی‘ محفل میں شریک ہر شخص شاہ صاحب کی گفتگو سننے کا منتظر ہوتا تھا‘میلوڈی مارکیٹ میں نماز ادا کرتے تو کبھی کبھی جناب شاہد شمسی سے ملاقات ہوجاتی وہ کھانے کی دعوت دیتے تو ازراہ مذاق ہلکے پھلکے انداز میں کہتے چلو آج جماعت اسلامی کا مال کھاتے ہیں‘ تاہم ایک سال سے وہ راولپنڈی صدر کے علاقے میں قاری سعید الرحمن کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے لگے یہ وہی مسجد جہاں سے پاکستان قومی اتحاد کے جلوس نکلا کرتے تھے‘ نماز کے بعد مسجد کے سامنے اکبر فرنیچر پر جاتے‘ کچھ دیر گپ شپ کرتے پرانی یادیں تازہ کرتے اور پھر ریلوے روڈ اور کرتار پورہ اپنا پرانا گھر دیکھنے چلے جاتے غالبا تین سال پہلے کی بات ہے ایک روز میلوڈی آئے اور کہا کہ چلو گوجر خان چلتے ہیں وہاں پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملتے ہیں‘ جب ان سے ملاقت ہوئی تو ان سے یہی گزارش کی کہ ان کے لیے دعاء کریں کہ اللہ انہیں چلتے ہاتھ پاؤں اٹھالے‘ مجھے باالکل بھی اس بات کا ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہاں اس کام کے لیے آئے ہیں‘بات سے بات جوڑنا اور لفظوں سے کھیلنا‘ خبر کی جستجو میں رہنا‘ بلا کی یاد داشت‘ قبلہ شاہ صاحب کی پہچان تھا‘ کوئی پریس کانفرنس ہو یا پارلیمنٹ‘ سید سعود ساحر ہر جگہ نظر آتے‘ ان کے لیے ادب اور احترام بھی بہت تھا‘ صحافت میں ان کے ہم عصر بھی بہت ہیں مگر جو شہرت شاہ صاحب کے حصے میں آئی وہ ان کے ہم عصروں میں کم ہی کسی کو ملی ہے‘ صحافتی زندگی بطور پروف ریڈر روزنامہ تعمیر سے شروع کی‘ اور جب شعبہ نیوز میں آئے تو اپنا صحافیانہ کردار بھی تعمیر کرتے چلے گئے‘قیام پاکستان کے بعد کا صحافتی دور ان کے ذکر کے بغیر نہ مکمل رہے گا‘ کوہستان کے بعد مولانا عبدالباری کے ہفت روزہ ”بے باک“کی ادارت کی اس کے بعد ”جسارت“ اور ”ہفت زندگی“ اس کے بعد ہفت روزہ تکبیر اور روزنامہ امت جائن کیا اور ان کے قلم کی رگوں میں جرائت مندانہ صحافت دوڑنے لگی انہوں نے بھٹو دور میں الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی‘ محمد صلاح الدین کے ہم رکاب ہوکر قلمی محاذ پر بھرپور حصہ لیا قبلہ شاہ نے خبر دی بھی اور ”خبر“ لی بھی، نظریاتی محاذ پر بھی قلم کے بے باک سپاہی کی حیثیت سے اپنی تحریر کے خوب جوہر دکھائے وہ نظریاتی صحافت کا دور تھا اور اس دور میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا انہوں نے جرائت مندانہ صحافت کی ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ایک نہائت قیمتی اور یادگار عہد کی کہانی ختم ہوگئی ہے‘ انہیں بہت سے حوالوں سے ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گاکسی بھی سیاسی رہنماء کی پریس کانفرنس ہو یا صدر پاکستان کی‘ پارلیمنٹ کی راہداری ہو یا کسی جلسہ جلوس کی کوریج‘ شاہ صاحب کا اپنا ہی اسٹائل ہوتا تھا‘ ان کے سوال میں اس قدر کاٹ ہوتی تھی کہ خدا کی پناہ‘کچھ عرصہ تک بائیں بازو کے کیمپ میں رہے تاہم تبدیلی آئی اور دنیائے اسلام کے عظیم اسلامی اسکالر مولانا مودودیؒ ان کے مرشد ٹھہرے ہمیشہ اس بات پر انہیں فخر رہا کہ ان کے پاس مولانا کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تعریفی خط موجود ہے‘ دل وجان سے وہ مولانا سے عقیدت رکھتے تھے‘جماعت اسلامی کے رہنماؤں میں محترم پروفیسر غفور احمد‘ جناب لیاقت بلوچ سے ان کی دلی محبت تھی‘ ایک بار ایسا ہوا کہ شاہ صاحب جماعت اسلامی اسلام آباد کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے اور گفتگو چل رہی تھی کہ جناب لیاقت بلوچ تشریف لائے‘ میاں اسلم صاحب کے ساتھ انہوں نے کوئی تنظیمی بات کرنی تھی‘ میں نے شاہ صاحب سے کہا کہ چلیں انہیں کوئی بات کرنی ہے‘ کہنے لگے چھوڑو بیٹھو یہاں‘ میں بھی وہیں بیٹھ گیا‘ لیاقت صاحب انہیں کہنے لگے اچھا بیٹھ جائیں مگر ہماری باتیں نہ سنیں‘ پھر خود ہی اگلا جملہ بولا کہ ویسے بھی آپ کسی کی کب سنتے ہیں‘ پروفیسر غفور احمد جب رکن سینیٹ تھے تو پارلیمنٹ لاجز میں ان کے ساتھ لمبی لمبی نشستیں کرتے‘ ان نشستوں میں‘ میں خود بھی شریک رہا‘ پروفیسر صاحب نے اپنا آپریشن کرایا تو ہسپتال سے فارغ ہوکر پارلیمنٹ لاجز میں ہی تھے اس دوران ہم دونوں مسلسل ان کی تیمارداری کے لیے آتے رہے‘ اس دوران ملکی سیاست اور ماضی کے واقعات زیر بحث رہتے‘ اس دوران ہونے والی گفتگو پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، وہ کسی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہیں تھے ان کی تعلیم واجبی سی تھی مگر خود صحافت کی ڈگری اور اتھارٹی تھے‘ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جسے تین کام نہیں آتے اسے دوکام نہیں کرنے چاہیے‘ یعنی جسے تاریخ‘ ادب اور ْجغرافیہ پر عبور نہیں اسے دو کام‘سیاست اور صحافت نہیں کرنی چاہیے‘ اپنی صحافتی زندگی میں دلائی کیمپ کا کھوج لگایا‘ بھٹو کی پھانسی کا وقت مقرر ہوا تو انہیں بھنک مل گئی بس پھرخبر کی تلاش میں نکل پڑے اور پکڑے گئے‘ لیکن یہ ”گرفتاری“ انہیں اسی خبر کے پاس ہی لے گئی جس کی تلاش میں وہ نکلے تھے‘ اتفاق سے جیل میں انہیں بٹھا دیا گیا جہاں انہوں نے بھٹو اور جیل حکام کی آخری گفتگو براہ راست سنی‘ اور پھر ”بھٹو کی پھانسی کا کانوں سنا حال“ لکھا،جنرل مشرف کے دور میں جب جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس کے نتیجے میں انہیں جیل جانا پڑا‘ تئیس سال کی قید کی سزا ہوئی‘ اس پریس کانفرنس پر شاہ صاحب کو بہت تجسس تھا‘ کہ معلوم کیا جائے کہ ہاشمی صاحب نے یہ پریس کیوں کی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے تمام سرکردہ رہنماؤں سے ملاقات کی کہ انہوں نے پریس کانفرنس کرنے کا بوجھ کیوں اٹھایا؟ایک بار ایسا ہوا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کی راہ داری سے گزر رہے تھے کہ متحدہ کے ایک وزیر کے دفتر کے سامنے سے گزر ہوا‘ اس وزیر کے اسٹاف میں سے ایک ملازم نے آواز دی کہ صاحب یاد کر رہے ہیں‘ وہ متحدہ کے وزیر صفوان اللہ تھے‘ ان کے دفتر گئے وہ بہت تپاک سے ملے‘ گپ شپ شروع ہوگئی‘ پوچھنے لگے کہ ہم کراچی سے اسلام آباد آنا چاہتے ہیں کیسے آئیں؟ شاہ صاحب نے کہا کہ کراچی بھول کر آئیں‘ مجھے پوچھا آپ کی رائے کیا؟ میں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ آپ کراچی کو بھی بھول جائیں‘ وہ واقعی بادشاہ گر تھے‘ بہت ہی دلیر اور نڈر تھے‘ اب کوئی سعود ساحر نہیں رہا‘ان کے ساتھ نیاز مندی پر فخر رہے گا