گلگت بلتستان کے گانچھے ڈویژن میں واقع خپلو کو 14ویں صدی کے اواخر میں سید علی ہمدانی نے قراقرم سلسلے کے دامن میں بسایا تھا، سید علی ہمدانی نوربخشی (ایک صوفی سلسلہ) فرقے کے پیروکار تھے۔
یہ وادی ہوشے کے راستے ماشربرم، K6 اور K7 جانے والے ٹریکرز کا آخری پڑاؤ ہوتا ہے۔ خپلو میں مجھے جس چیز نے حیران کیا وہ یہاں موجود قدرت سے ہم آہنگ تعمیرات تھیں۔ اکثر عمارتیں مقامی طور پر دستیاب وسائل اور تعمیرات کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہی تعمیر کی گئی تھیں اور ماحول سے گھلی ملی نظر آرہی تھیں۔
شمالی علاقہ جات کے کسی اور سیاحتی مقام کے برعکس یہاں قدرت کو مسخر کرنے، وسیع و عریض جنگلات کو کاٹنے اور جنگلی نباتات اور حیوانات کو قابو کرنے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔ میرے لیے خپلو گلگت بلتستان کے سرد صحرا میں ایک نخلستان تھا جہاں قدرتی مقامات، دریاؤں کی روانی اور مقامی جنگلات کی قدر کی جاتی ہے۔
2 لاکھ آبادی والے اس شہر میں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے کوئی جرم نہیں ہوا ہے۔ یہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔ میرے نزدیک تو یہ پائیداری کی مثال ہے کیونکہ قدرت بھی خوش ہے اور یہاں کے شہری بھی مطمئن ہیں، یوں شہر کی ساخت اور سماجی اثرات کے درمیان ایک توازن برقرار ہے۔ یہ ’توازن‘ مقامی افراد کی مہمان نوازی میں بھی جھلکتا ہے۔ انجان لوگ بھی ہم سے باتیں کرتے اور ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے اور پھل پیش کرتے۔ کیا ہم کراچی میں اس کا تصور کرسکتے ہیں؟
ہخپلو میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہاں مختلف موسموں میں مختلف مناظر اور مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خزاں کے موسم میں یہاں موجود سفیدے کے درخت زرد ہوجاتے ہیں اور سردیوں میں یہ علاقہ سفید چادر اوڑھ لیتا ہے جبکہ بہار کے موسم کی ابتدا میں یہاں گلابی رنگ نظر آتا ہے۔ یوں ہمیں ہم آہنگی کی ایک اور مثال نظر آتی ہے۔ یہاں کے مقامی گھر بھی قدرتی رنگا رنگی کے عکاس ہوتے ہیں اور ان پر عموماً شوخ رنگ کیے جاتے ہیں۔