عہد حاضر کے روشن دماغ مفکر اور ماہر اقبالیات احمد جاوید

اقبال ثانی
ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم
کا تعارف
جناب احمد جاوید صاحب کی زبانی!!!

(فہم القرآن و فکر اقبال
21 ویں صدی میں
ڈاکٹر محمد رفیع الدین
ممتاز مصنف و مفکر
کے افکار و تصورات کی
روشنی میں)

عہد حاضر کے
روشن دماغ مفکر
اور ماہر اقبالیات
جناب احمد جاوید صاحب
کے خطاب کا مکمل متن!!!
بیسویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور
ماھر قرآنیات و اقبالیات جناب
ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کو
سمجھنے کا واحد حوالہ اقبال ہیں۔
ان کی تمام تر فکری سرگرمیاں اور
سارے علمی منصوبے اقبال کے
ورلڈ ویو (world view) کو
متعلق (Relevant) رکھنے کے لیے تھے۔
میری رائے میں،
ڈاکٹر محمد رفیع الدین،
اقبال کی فکری روایت کے کامل اور صادق وارث ہیں۔
اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو اقبال کا کام اپنی
کلیت کے ساتھ سامنے نہ آتا۔

اقبال کا ایک بنیادی تھیسس ہے کہ امت مسلمہ نے
قرآن کو تعلیم و تعلم کے جس چینل میں ڈال کر پڑھا
وہ مرادِ قرآنی تک پہنچا ہی نہیں سکتا تھا۔
قرآن ایک کتابِ وجود ہے اس کے ذریعے
جذبہ حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں
ذہن بڑے بڑے کام کرنے کے لائق ہو جاتا ہے۔
قرآن کو حاصل شدہ علم کی (given knowledge) کی روشنی میں دیکھنا،
قرآن سے ہمیشہ دور رکھے گا۔
ڈاکٹر رفیع الدین صاحب نے اس بنیادی نکتے پر
کام کیا اور اقبال نے اس کے جو اسباب و نتائج
بیان کئے تھے اس میں دس گنا اضافہ کر دیا۔

انہوں نے اقبال کے بنائے ہوئے
پیراڈائم میں
قرآن کو تفصیل کے ساتھ دیکھا۔
اقبال اپنی قرآن فہمی کی جس روایت کو
باقاعدہ تفصیل نہ دے سکے، وہ کام
ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے ان کے ایک
مستند وارث کی حیثیت سے سرانجام دیا۔
ڈاکٹر صاحب یہ کام نہ کرتے تو ہم
اقبال کا تصورِ قرآن سمجھ ہی نہ سکتے۔

دوسرے یہ کہ انہوں نے اقبال کے تمام تر
افکار میں خودی کو مشترک اساس کے
طور پر دریافت کیا،،،

مزید یہ کہ ان کے تمام افکار کا مقصود یہ ہے کہ
شعور، وجود میں رکھے ہوئے جوہرِ خودی سے
خود کو ہم آہنگ کر لے۔

اقبال کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ
اپنی ہر تھیوری کو مقالے کی صورت پیش کرتے۔
انہوں نے محض اشارے کیے ہیں اور ان کے
اشاروں کو ڈاکٹر رفیع الدین صاحب سے
زیادہ کسی نے نہیں سمجھا۔

اقبالِ تاریخی شعور،
جس کی تغیرِ پیہم
(Constant change)
کی بنیاد پر تشکیل ہوئی،
میں پہلی بار قرآنی دلائل سے انسان کو
مجبورِ محض کے عنوان سے آزاد کرایا اور
تاریخ پر انسانی غلبے کے ٹھوس امکانات
پیدا کر کے دکھا دیئے۔

اسی میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ
تغیر کو عموماً تمام علمی روایتوں میں
منفی پن کے ساتھ دیکھا گیا ہے ،،
مگر اقبال نے کہا کہ
تغیر ثبات کی ضد نہیں بلکہ اس کی ضرورت ہے۔

یہی نکتہ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کی
کتاب آئیڈیالوجی آف اسلام ideology of Bloch slam کی پیدائش کا سبب ہے۔

چوتھے یہ کہ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب نے
یہ establish کر کے دکھا دیا کہ
قرآنِ مجید کو اقبال کے
وجدانِ ہدایت کو وسیلہ
بنائے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔

یہ ان کا بہت بڑا دعویٰ ہے اور بہت بڑا کارنامہ بھی،
جس پہ ابھی توجہ کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جدید ذہن کے لئے
تین بنیادی سوالات
کہ خدا کیا ہے؟
کائنات کیا ہے؟
اور حسن کیا ہے؟
کے جواب کے لیے
اقبال کو ناگزیر ثابت کیا۔
اقبال کے سوا ان کا جواب
جہاں سے بھی ملے گا وہ
ٹوٹا پھوٹا اور ناقابلِ اعتبار ہو گا۔
وہ بنیادی تقدیری سوالات جو
انسانی ذہن کی آفاقی عادتیں ہیں،
کے لئے اگر کہیں سے مکمل جواب مل سکتا ہے تو
وہ فکرِ اقبال اور شعرِ اقبال سے مل سکتا ہے۔

اصولی طور پر میں نے یہ عرض کر دیا کہ
اقبال نے شعور اور تاریخ کے سمندر پر
بہت سے جزیرے بنائے ہیں، سمندر میں
چلنے والی کشتیوں کو روشنی دکھانے کے لئے
اور ان جزیروں میں انسان پوری زندگی گزار سکتا تھا۔
گویا اقبال کی فکر بھی
شعورِ انسانی کی کلی کفالت کر سکتی تھی۔
ڈاکٹر محمد رفیع الدین صاحب نے ان جزیروں کے
درمیان رابطہ قائم کر دیا۔
یہی کام اتنا بڑا ہے کہ اگر ہم اس سے
فائدہ اٹھانے کے قابل ہو گئے تو
ہم یہ کہ سکیں گے کہ ہم نے
کلامِ اقبال کو کلی تنوع
(کثرت فی الوحدت) میں دیکھا ہے۔
یہ وحدت ہماری گرفت میں کبھی نہ آتی جسے
ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے ہمارے لئے لائقِ شعور بنا دیا۔
اب علامہ محمد اقبال پہ کوئی سنجیدہ کام
ہو ہی نہیں سکتا الا یہ کہ
ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کو وسیلہ بنایا جائے۔

علم اور وجود میں میں
عینیت یا غیریت کے
اقبالی تصور کی تفصیل میں
ڈاکٹر محمد رفیع الدین صاحب نے
یہ دعویٰ کیا ہے کہ
قرآن پڑھے بغیر علم کی
تشکیل کا کوئی عمل ممکن ہی نہیں۔
یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ
اقبال سنتے کہ یہ دعویٰ میرے کلام سے
اخذ کیا گیا ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب کی پیشانی چومتے۔

آپ کتنے ہی بڑے ماہرِ اقبال ہوں،
جب آپ ڈاکٹر محمد رفیع الدین صاحب
کو پڑھیں گے تو احساس ہو گا کہ
آپ کی اقبال شناسی کا آغاز
آج ہو رہا ہے۔ !!!
اپنے عہد میں
اقبال کو سمجھنے والے
وہ سب سے بڑے آدمی تھے۔
فرقِ مراتب کے ساتھ وہ
اقبالِ ثانی تھے۔،،،

مکالمہ و ڈائیلاگ کا انعقاد
دبستانِ اقبال لاہور میں
مجلس فکر و دانش
( علمی و فکری مکالمے)
کے زیر اہتمام ہوا جس کی
صدارت دبستانِ اقبال کے ڈائریکٹر
میاں اقبال صلاح الدین نے کی
اور
افتتاحی گفتگو میزبان مجلس
ڈائریکٹر
پاک افغان ایران
اقبال
ڈائیلاگ، ریسرچ اینڈ
ڈیولپمنٹ فورم
عبدالمتین اخونزادہ نے ادا کئے،،
انتظامی ذمہ داری
جناب مسعود میر نے
اور تلاوت قرآن پاک
ڈاکٹر طلحہ شاہ صاحب نے فرمائی،،

مہمان خاص مفکر اور دانش ور
جناب احمد جاوید صاحب نے
ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم پر
انتہائی جامع اور معنی خیز گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے
افکار و تصورات
اور لمحہ موجود کی
انسانی دانش و حکمت کے پیش نظر
ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے کام
اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی
احیاء و تعارف وقت کی ضرورت ہے،
ان کے کتب وفکر کی
ترویج و اشاعت ضروری ہے،،

قرآن اور علم،

آئیڈیالوجی آف دی فیوچر
مستقبل کا نظریہ
حکمت اقبال
اسلام کا نظریہ تعلیم
منشور اسلام
ان کی
شاہ کار کتب ہیں،،،

مجلس فکر و دانش
علمی و فکری مکالمے نے
علامہ اقبال کے افکار و تصورات کی
فریم ورک
تشکیل و تعبیر نو کے لئے
ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم
کا درست انتخاب کیا ہے،،،

مجلس میں خواتین اور
نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی
اور سوالات کئے،،
ممتاز مصنف ڈاکٹر اعجاز الحق،
ڈاکٹر محمد اکرم چغتائی،
ڈاکٹر شفیق عجمی اور دوسرے
اہل علم و ادب شریک محفل رہے،،،