مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے وہ قرارداد پیش کی جس میں ہندوستان کے سیاسی مسئلے کا حل ملک کی تقسیم قرار دیا گیا


 کانگریس کا ہمیشہ سے پراپیگنڈہ رہا اور ہندوئوں کا یہ دعویٰ تھاکہ کانگریس سارے ہندوستان کی نمائندگی کرتی ہے ۔یوں ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ سے مسلمانوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا تھا۔ تاریخ کا یہی وہ موڑ تھا جب مسلمانوں کو ہوش آیا اور وہ سمجھ گئے کہ ان دونوں کی ملی بھگت ان کے قومی وجود کو خطرہ  لا حق ہے۔سرسید احمد خاں اس دوران مسلمانوں کو تنبیہ کرتے رہے کہ وہ ہندو سے ہوشیار رہیں اور اس کی ڈپلومیسی میں معاون نہ بنیں۔ چنانچہ چند ہوش مند مسلمانوں نے اپنی قوم میں سیاسی عمل جاری کرنے اور ان کی آواز کو مؤثر لہجہ دینے کیلئے 1906ء میں مسلم لیگ کے نام سے ایک الگ پلیٹ فارم مہیا کیا۔ انگریز انتظامیہ کانگریس سے جو حسن ظن رکھتی تھی وہ بے جا نہ تھا۔گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے مطابق کانگریس نے چناؤ میں کامیابی کے بعدجب ہندوستان کے چھ صوبوں میں اپنا راج قائم کیا تو مسلمانوں کیلئے ان کی نفرت و حقارت پہلے سے زیادہ جھلکنے لگی۔ کانگریس نے مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیزی اور ظلم و ستم کی جو مہم شروع کی تھی اس کے ردعمل کے طور پر مسلم لیگ نے اپنی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ شائع کی جس نے اقلیتوں پر کانگریس کے مظالم اور اس کی درپردہ سازشیں بے نقاب کردیں۔ اگرچہ کانگریس نے ان حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا جو اس کے دور وزارت میں اس کے جبروتشدد کے باعث نمودار ہوئے تھے لیکن ان مظالم کی صدائے بازشت اتنی توانا تھی کہ کانگریس بیرون ملک بھی سخت جرح و تنقید کا موضوع بنی۔ یہ صورتحال ابھی تبدیل نہ ہوئی تھی کہ جنگ عظیم نے خطر ناک شکل اختیار کرلی۔ انگریز جنگ کے مراحل میں ہندوستان کی تمام قوموں اور افراد کا تعاون حاصل کرنا چاہتا تھا جبکہ کانگریس مرکز میں بھی اپنے اقتدار کے خواب دیکھ رہی تھی۔کانگریس جب وائسرائے سے اپنی بات نہ منوا سکی تو اس نے جنگ کی پالیسی سے اختلاف کا سہارا لیا اور صوبائی وزارتوں سے مستعفی ہوگئی۔ کانگریس کا خیال تھا کہ انگریز اس نازک موقع پر گھبرا کر اس کے آگے ہتھیار پھینک دیں گے اور وہ مرکز سمیت پورے ہندوستان میں وزارتیں بناکر ملک میں عملاً ہندو راج قائم کرسکے گی لیکن ٹھیک اس وقت قائداعظم نے اپنی بے پناہ سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے ’’خس کم جہاں پاک‘‘ کا نعرہ لگایا اور کانگریسی وزارتوں کی تنسیخ کے فوراً بعد ’’یوم نجات‘‘ منانے کا اعلان کردیا۔ 26 دسمبر 1939ء کو مسلم لیگ کی اپیل پر ملک بھر میں ’’یوم نجات‘‘ منایا گیا ۔ 

کانگریس نے اپنی وزارتوں کے دوران مسلمانو ں کیخلاف جو اقدامات کئے تعلیمی، تہذیبی اور سیاسی شعبوں میں مسلمانوں کے اثرات کو کم کرنے یا انہیں زائل کرنے کیلئے جو کوششیں اپنے عارضی دور حکومت میں روا رکھیں وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھیں۔ مسلمان یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ اگر انہیں برصغیر میں عزت و آبرو کی زندگی گزارنا ہے ، اگر اپنے سماجی، تہذیبی اور علمی ورثہ کی حفاظت کرنی ہے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو تحفظ دینا ہے تو انہیں کانگریس کے خفیہ اور عیاں عزائم کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس کا توڑ کرنا ہوگا۔

 بر صغیر کے مسلمانوں کومرحوم سرسید احمد خاں کی وہ تلقین یاد آئی جو انہوں نے اپنے ہم مذہبوں کو کی تھی۔  انہیں محسن الملک اور وقار الملک یاد آئے جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں مسلمانوں کو کانگریس سے دور رکھنے کیلئے عملی جدوجہد کی اورجداگانہ سیاسی پلیٹ فارم ’’مسلم لیگ‘‘ قائم کیا۔ انہیں مسلم ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے جری اور غیرت مند انسان محمد علی جناح یاد آیا جس نے اپنی ساری زندگی ہندو مسلم اتحاد کیلئے وقف کررکھی تھی لیکن جو بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ہندو کانگریسیوں سے مسلمانوں کے تحفظ کی کوئی توقع عبث ہے اور اس مرحلے پر انہیں اپنے عظیم مفکر کا وہ آدرش یاد آیا جو اس نے دس سال پہلے مسلم ہندوستان کو دیا تھا۔ یہ مفکر اقبال تھا جس نے 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں کہا تھا:

’’میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک جیسا بنا دیا جائے۔ شمال و مغرب میں ہندوستانی مسلمانوں کی متحدہ حکومت کی تشکیل میں مجھے کم از کم شمال و مغرب کے ہندوستانی مسلمانوں کا قطعی مستقبل نظر آتا ہے۔‘‘

مسلمانوں کے اسی مفکر نے اپنے اس بصیرت افروز خطبے میں مزید کہا تھا:

’’ہم سات کروڑ ہیں اور ہندوستان کے باشندوں میں سب سے زیادہ متحد، باہم منسلک اور مربوط ہیں۔ ہم سے زیادہ یکساں نظریہ رکھنے والی قوم اور کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی وہ قوت ہیں جن کو اس لفظ کے جدید ترین معنی میں قوم کہا جاسکتا ہے۔ ہندو اگرچہ بہت سی چیزوں میں ہم سے گے ہیں مگر ان میں وہ یکسانیت نہیں جو ایک قوم کیلئے ضروری ہے۔ وہ یکسانیت جو اسلام نے ہمیں تحفے کے طور پر مفت عطا کی ہے۔‘‘

کانگریس کے عارضی راج کا ردعمل اتنا تیز تھا کہ مسلمان متحرک ہوگئے اور نئی منزل کی جستجو میں جب انہوں نے اپنی ساری تاریخ کو کھنگالا تو اس سے جو کچھ اخذ ہوا وہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ اپنی تہذیبی  سلامتی اور تشخص کیلئے ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم وطن کا قیام ضروری ہے اور یہ شاید اسی کی صدائے بازگشت تھی کہ علامہ اقبال کے تصور پر مبنی ایک آزاد وطن کے قیام کا سب سے پہلا باقاعد￿ جماعتی ریزرولیوشن 1938ء میں سندھ مسلم کانفرنس نے پاس کیا اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس کانفرنس میں خود قائداعظم محمد علی جناح موجود تھے انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں مسلم لیگ کی تنظیم کے ساتھ ساتھ کانگریس کی بداعمالیوں اور اس کے مقاصد و مظاہر کو بے نقاب کیا۔ ملک کی سیاسی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اپنوں کی غداری اور کانگریس کے مذموم عزائم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر قومی اتحاد اور تنظیم کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ کانگریس کی ساری بدمستیوں کا علاج ایک اور صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان منظم قوت حاصل کریں اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہوجائیں نیز اپنی آزادی اور خودمختاری کی راہ ہموار کریں۔ انہی دنوں میرٹھ میں نوابزادہ لیاقت علی خاں نے بھی ایک اجلاس کے صدارتی خطبہ میں مسلمانوں کے آخری سیاسی چارہ ء کار کے طور پر اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا … لیکن اتنا اہم فیصلہ صوبائی یا ضلعی سطح پر طے ہونا ممکن نہ تھا۔ یہ پورے ہندوستان کے مستقبل کا مسئلہ تھا اور اس سے بھی زیادہ ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی تحفظ اور استقلال کا سوال تھا۔ چنانچہ ہندوستان کے کئی کونوں سے بلند ہونے والی یہ آواز بالآخر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے یوں بلند ہوئی کہ اسے مسلم ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ کا مظہر قرار دیا گیا۔

مارچ 1940ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ اجلاس کا انعقاد طے پا چکا تھا کہ خاکساروں اور صوبائی حکومت میں تصادم ہو گیا جس میں متعدد خاکسار شہید ہو گئے اور فضا انتہائی کشیدہ ہو گئی۔ ایسے حالات میں ایک ملک گیر تنظیم کا اہم سالانہ اجلاس منعقد کرنا اور اس کی ذمہ داری قبول کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ قائداعظم نے اس ذمہ داری کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ہندوستان کی سیاسی تایخ کا یہ اہم ترین اجلاس اپنی متعدد نشستیں خیروعافیت کے ساتھ ختم کرکے اختتام پذیر ہوا تو ہندوستان کا سیاسی اور جغرافیائی مستقبل نظروں کے سامنے تھا۔23 مارچ 1940ء کو ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مندوبین کے سامنے مسلم بنگال کے نمائندے مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے وہ قرارداد پیش کی جس میں ہندوستان کے سیاسی مسئلے کا حل ملک کی تقسیم قرار دیا گیا۔قائداعظم نے اپنے اس خطاب میں ہندو مسلم اتحاد کے ناقابل عمل اور نامکمل ہونے کی جانب  دو ٹوک الفاظ میں اظہارخیال کیا۔  میں اس پلیٹ فارم سے واشگاف الفاظ میں واضح کرتا ہوں کہ اگر کوئی عبوری سمجھوتہ ہماری منظوری اور مرضی کے بغیر کیا گیا تو ہندوستان کے مسلمان اس کے خلاف مزاحمت کریںگے۔ اس سلسلے میں انہیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے۔‘‘