معاشی تباہی پر انتہائی دکھ

ممتاز دانش ور، بلوچستان کے سابق ایڈوکیٹ جنرل سینیئر قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل(صدارتی تمغہ امتیاز) نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اسکی وجہ معاشی تباہی پر انتہائی دکھ ہے اور اپنی فکر کرنی چاہیے عوام کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے انہیں مہنگائی کی چکی نے پس کر رکھ دیا ہے، بلوچستان ملک کا اہم صوبہ جہاں قدرتی معدینات کے وسیع ذخائرہیں انہیں ملکی تقری کے لیے کام میں لانا چاہیے، ہمیں سی پیک پر انحصار کرنے کی بجائے خود انحصاری کی جانب بڑھنا چاہیے تاکہ ہم بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرلیں انہوں نے یہ بات پاکستان میڈیا تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہی، تقریب یوم آزادی کی تقریبات کے حوالے سے کی گئی تھی، اس میں اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے سابق سینئر نائب صدر عمران بخاری، عمران شبیر عباسی اور سابق نائب صدر مدثر فیاض نے بھی اظہار خیال کیا، ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ دلدل کی دھکیلنے کے علاوہ ملکی استحکام کو بھی برباد کردیا ہے جوڑ توڑ کی اس غیر سنجیدہ سیاست نے سیا سی عدم استحکا م کوپر وان چڑ ھا یا ہے اور جس کی وجہ سے ملک دیولیہ ہو نے کے قریب پہنچ گیا ہے حکو مت کے لیئے تیل اور گیس خرید نے کے لیئے LCکھولنا مشکل ہو گیا ہے۔آئندہ سال عالمی معیشت کو بہت سی مخالف تیز ہواؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے کئی بحران بیک وقت ہمارے سامنے ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم زرعی ملک ہیں مگر اجناس کا غیر معمولی چکر جس کے بارے میں 1970 کی دہائی کے بعد کبھی نہیں سنا گیا، اجناس اب ہمیں برآمد کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے حتمی تجزیہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ مشکلات ایک بنیادی خرابی کی بھی علامت ہیں جسے زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا، عمران بخاری نے کہا کہ۔پاکستان کے حالات خدا نخواستہ سری لنکا جیسے نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس خطرے سے کہیں دور ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ہمارا ملکی داخلی قرضہ جو جی ڈی پی کا تقریباً 70 فیصد ہے بہت زیادہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارا بیرونی قرضہ، جو جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے، بھی قدرے کم ہے انہوں نے کہا ہمیں ملک میں سود ختم کرنے کی تحریک چلانا ہوگی، اس کے بغیر ملکی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی، پاکستان کے چاروں صوبوں میں ترقی کے مواقع ہیں، ہمارا کوئی صوبہ زرعی ہے اور کوئی قدرتی معدینات سے بھرپور ہے ہمارے پاس اپنے وسائل ہیں لیکن ہم انہیں استعمال میں نہیں لارہے عمران شبیر عباسی نے کہا کوئی ایک بحران تنہا بھی ہوتا تو بہت بڑا چیلنج ہوتا،تاہم ان سب نے مل کر ایک مکمل طوفان کو جنم دیا ہے جسے آئی ایم ایف نے ”ہماری زندگی کا سب سے زیادہ پھیلاہوا پیچیدہ پالیسی ماحول“ قرار دیا ہے۔دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان بھی اس طوفان کی زد میں ہے ملک میں تاریخ کی بلند ترین مہنگائی ہے،زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے، روپے کی قدر میں دباؤ زیادہ تر عالمی وجوہات سے آیا ہے، تاہم اس میں ملکی عوامل بھی ہیں۔ اول اقساط کا بدقسمتی سے جمع ہوجانا۔ دوم، سیاسی بے یقینی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں تاخیر اور پالیسی کے حوالے سے کوتاہیاں ہونا۔ یہ کوتاہیاں زیادہ تر مالیاتی سطح پر تھیں، مدثر فیاض چوہدری نے کہا کہ جبکہ بیرونی قرضے کی واپسی کی رقوم بڑھتی رہیں جس سے فروری سے اب تک ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی بھاری کمی آئی۔ یہ سب کا سب خودبخود نہیں ہوا۔ ہماری مشکلات کا یہ حصہ ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔عالمی مارکیٹ میں افرا تفری کی موجودہ حالت کئی ملکوں کے لیے واقعی پریشان کن ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ ہمیں بھی اُن ملکوں میں شمار کررہے ہیں جو قرضے کے بحران سے دو چار ہیں۔ لیکن یہ خیال خام ہے تیسری بات یہ کہ جو چیز ملکوں کو مشکل میں ڈالتی ہے۔وہ قلیل مدت کا بیرونی قرضہ ہوتا ہے جو تجارتی شرائط پر نجی شعبہ لیتا ہے۔ ان تمام معاملات میں پاکستان کی صورتِ حال بری نہیں ہے۔ ہمارا تقریباً 95فیصد بیرونی قرضہ درمیانی یا طویل مدت کا ہے۔ ہمارا 80 فیصد بیرونی قرضہ کثیر فریقی چین، سعودی عرب اور پیرس کلب جیسیسرکاری دو طرفہ فریقوں سے لیا گیا ہے، اس میں سے بھی بیشتر رعایتی شرائط پر لیا گیا ہے ہمارا کمرشل قرضہ جو غیرملکی بینکوں یا بانڈز کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے بہت کم ہے۔ ہمارا تقریباً تمام بیرونی قرضہ سرکاری شعبے کا ہے سب سے اہم بات جو خطرات سے دوچار دوسرے ملکوں سے پاکستان کو الگ اور ممتاز کرتی ہے وہ ہمارا آئی ایم ایف کا جاری پروگرام ہے۔ کئی ماہ جاری رہنے والے مشکل مذاکرات کے بعد ہم 13 جولائی کو آئی ایم ایف کے اسٹاف کے ساتھ معاہدے کے اہم سنگِ میل تک پہنچ گئے جو پروگرام کے اگلے جائزے کی تکمیل کے بارے میں تھا۔ اس طرح آئی ایم ایف بورڈ کے لیے راہ ہموار ہوگئی کہ وہ پروگرام کے تحت اگلے ماہ نئی قسط جاری کردے۔