قوم آج آزادی کی پون صدی کی تکمیل کی جانب بڑھتے ہوئے اپنا جشن آزادی بھر پور انداز میں منا رہی ہے

پاکستانی قوم آج آزادی کی پون صدی کی تکمیل کی جانب بڑھتے ہوئے اپنا جشن آزادی بھر پور انداز میں منا رہی ہے، جشن رات گئے بلکہ پوپھٹنے تک جاری رہے گا۔ آزادی یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا احساس قدرت نے انسانوں ہی نہیں حیوانوں میں بھی ودیعت کیا ہے چنانچہ آزادی کی اس نعمت کا شکر پاکستان میں بسنے والے ہم بائیس کروڑ انسانوں پر واجب ہے، یوم آزادی پر جشن منانا بھی زندہ دل پاکستانیوں کا حق ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہو گئے ہیں، جن مقاصد کے حصول کی خاطر ہم نے تحریک آزادی برپا کی تھی… لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی… اپنی، مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں اور عصمتوں کو پامال ہوتے دیکھا تھا… اپنا سب کچھ، گھر بار، مال و متاع اور عزیز و اقارب چھوڑ کر اس پاک خطے کی جانب ہمارے آباء و اجداد نے ہجرت کی تھی کہ ہم اس خطے کو مکمل آزاد فضا میں اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے اور قرآن و سنت کی رہنمائی میں اسے دنیا بھر کے سامنے ایک مثالی اسلامی اور فلاحی ریاست کے نمونہ کی حیثیت سے پیش کریں گے، کیا ہم یہ مقاصد حاصل کر سکے ہیں؟ کیا یہ مملکت واقعی اسلامی و فلاحی مملکت کا نمونہ بن سکی ہے؟ نہیں… ہر گز نہیں… گزشتہ پون صدی میں ہم نے اس مملکت خداداد میں سرمایہ دارانہ جمہوریت، سوشلزم اور سول و فوجی آمریت سمیت ہر طرح کے تجربات کئے ہیں لیکن اسلام، قرآن و سنت یا شریعت کو نظام حکومت کے قریب نہیں پھٹکنے دیا یہاں کے سلیم الفطرت اور نیک نہاد لوگوں کی انتھک اور ہمہ پہلو جدوجہد کے نتیجے میں ہماری مجالس قانون ساز نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ تو منظور کر لی اور پھر نفاذ اسلام کے تقاضوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ آئین بھی قوم کو نصیب ہو گیا مگر یہاں عملاً اقتدار پر قابض سرمایا دار و جاگیردار سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں نہ تو کبھی عوام کے حقیقی اور مخلص خدمت گاروں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے دیا گیا اور نہ ہی شریعت کی روشنی میں قانون سازی کے تقاضوں پر توجہ دی گئی… نتیجہ یہ ہے کہ آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں انگریز کے مسلط کردہ قوانین رائج ہیں، یہاں کی معاشی اور معاشرتی پالیسیاں عالمی سامراج کے تابع فرمان بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور عالمی بنک تیار کرتے اور جبراً ان پر عمل کرواتے ہیں کیونکہ ہم سر سے پائوں تک ان کے سودی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں جن کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہمارے بیرونی آقائوں ہی کا تیار کردہ ہے یہاں تک کہ اب یکساں نصاب تعلیم کے نام پر جو کچھ ہماری آئندہ نسلوں کو پڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا ہمارے قومی اور ملی تقاضوں اور دین و شریعت سے دور کا بھی تعلق نہیں، نصاب اور نظام تعلیم کے ذریعے ہمیں انگریز کے بعد انگریزی کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے حالانکہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوری بعد دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کی قومی اور دفتری زبان اردو ہو گی مگر ان کا ارشاد ہنوز تشنئہ تکمیل ہے آج سے تقریباً چھ برس قبل ملک کی اعلیٰ ترین فاضل عدالت نے بھی واضح فیصلہ سنایا تھا کہ پاکستان کے آئین کی رو سے یہاں کی قومی و دفتری زبان اردو ہے عدالت عظمیٰ نے تمام سرکاری اداروں کو پابند کیا تھا کہ تین ماہ کے اندر ہر طرح کی خط و کتابت اور سرکاری مراسلت میں لازماً اردو کو رائج کیا جائے مگر اس فیصلے کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن پاکستانی قوم سرکاری اور نیم سرکاری بلکہ نجی زندگی تک میں انگریزی کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکی بانی پاکستان کے واضح حکم اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کی مسلسل خلاف ورزی جاری ہے