شہدائے بہاول پور اور شہید جنرل محمد ضیاء الحق کی شہادت کے واقعہ کو آج34 برس گزر چکے ہیں۔ اس حادثے سے چونکہ میرا ذاتی تعلق بھی ہے، لہٰذا ہر روز جب صبح بیدار ہوتا ہوں تو آسمان کے افق پر ضرور نظر ڈالتا ہوں کہ شاید یہی وہ آج کا دن ہوگا جو شہدائے بہاول پور کی شہادت سے متعلق حقائق سامنے لانے والا دن بنے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا۔
جب ہم شہید جنرل ضیاء الحق کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ایک جانب افغانستان میں ملنے والی فتح نظر آتی ہے اور دوسری جانب سری نگر سے آزادی کے لہراتے ہوئے پرچم نظر آتے ہیں۔ کا بل فخر کرتا ہے وہ روس کے پنجے سے آزاد ہوا کہ اس کے پیچھے جنرل ضیاء الحق تھے، سری نگر ابھی تک بھارتی سرکار کی غلامی میں ہے کہ جنرل ضیاء الحق اس دنیا میں نہیں رہے۔ کابل ہو یا سری نگر، دونوں کا پاکستان کے حوالے سے سوچنا ایک حقیقت بھی ہے اور نظریاتی تعلق بھی۔پاکستان تحریک انصاف نے کوئٹہ میں بڑے جلسے کا اعلان کردیا
جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان سپہ سالار تھے۔ انھوں نے ایک منجھے ہوئے مدبر کی حیثیت سے افغان جنگ میں افغانوں کی مدد کی۔ عالمی برادری نے ایک بڑی سپر پاور کو افغانستان میں مرتے ہوئے دیکھا۔
جنرل ضیاء الحق نے یہ فرض اس وقت نبھایا کہ جب وطنِ عزیز سقو طِ ڈھاکا کے بعد معاشی اور سیاسی طور پر غیرمستحکم تھا اورمشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ ایک جانب بھارت تھا اور دوسری طرف روس کا دبائو۔ ان کے سامنے جنرل ضیاء الحق جیسا مدبر، تحمل مزاج انسان جس نے کبھی اپنی حکمت عملی اپنے ماتھے پر پڑنے والی شکنوں کے باعث افشا نہیں کی تھی۔ کیا ذیا بیطس کے مریض چاول کھا سکتے ہیں؟
بھارت جب منصوبہ بنارہا تھا تو جنرل ضیاء الحق نے پہلے کلدیپ نائر کے ذریعے بالواسطہ پیغام دیا اور اس کے بعد جب بھارتی عزائم کی انگڑائی ختم نہ ہوئی تو کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے براہِ راست راجیو گاندھی کو سخت پیغام دیا کہ بس، بہت ہوگیا! ہم تیار ہیں!! ان جملوں نے بھارت کی غلیظ اور مکروہ منصوبہ بندی گٹر میں بہا دی۔ یہ دھمکی اس وقت دی گئی جب ہمارے پاس سب کچھ تھا مگر ہم خاموش تھے۔ اس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی شناخت بھی رکھتا تھا۔
افغان قوم کو روس کے پنجۂ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے اور اس کا کریڈٹ جنرل ضیاء الحق اور ان کے فوجی کمانڈروں کو جاتا ہے۔روس کی ایک اور عسکری بیس پر حملے، اسلحہ ڈپو میں آگ بھڑک اٹھی
1979ء میں جب روس کی فوج نے افغانستان میں جارحیت کی تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی مدد کرنی چاہیے۔
مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کو ئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا اور نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ کراچی: این اے 237 اور 246 سے بھی عمران خان کے کاغذات نامزدگی منظور
سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین یا سی آئی اے کی جنگ نہیں تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق ہے۔ جس نے کامیاب حکمت عملی سے جنگ کو آگے بڑھایا۔
’ ضیاء الحق کے ہمراہ‘ کے عنوان سے جنرل کے ایم عارف نے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انھیں1979ء کے وسط میں امریکا جانے کا اتفاق ہوا اور وہ وہاں ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں گئے جہاں سٹور کے ملازم نے انھیں پوچھا کہ کس ملک سے آئے ہیں؟ جواب دیا، پاکستان سے۔ ملازم نے پوچھا کہ آپ ضیاء کو جانتے ہیں؟ لکھتے ہیں کہ میں انجانا سا بن گیا اور پوچھا کس ضیاء کی بات کر رہے ہو؟ ملازم نے کہا، وہ جو پاکستان میں صدر ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ مجھے تو وہ کوئی پاگل لگتا ہے جس نے امریکا کی400 ملین ڈالر کی امداد مونگ پھلی کا نام دے ٹھکرا دی۔امریکی خام تیل کی قیمت میں مزید کمی
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق کے انکار کے بعد امریکی کہہ رہے تھے کہ اس انکار کی وجہ سے امریکی رائے عامہ بہت سخت ردعمل دے گی، لہٰذا اگر امریکی حکومت خود ہی یہ امداد جاری کردے تو کیا ہوگا؟
جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا کہ وہ پھر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کریں گے اور اور جو گفتگو دونوں ملکوں کے مابین ہوئی اسے پوری طرح کھل کر پریس کے سامنے رکھ دیں گے۔
میں ان کے صاحبزادے کی حیثیت سے ایک درخواست کرتا ہوں ہر اس دانشور سے جو افغان جنگ کا غیر جانبدار تجزیہ کرنا چاہے کہ اگر وہ اس جنگ میں کسی جگہ جنرل ضیاء الحق کی حربی صلاحیت کو کمزور سمجھے تو اس پر اپنی رائے ضرور دے، محض تعصب کی بنیاد پر کوئی بات نہ کی جائے۔ تاریخ کی ایک اور گواہی یہ بھی ہے کہ وہ گیارہ سال اقتدار میں رہے اور کبھی کسی کوذاتی رنجش کی بنیاد پر اپنے اقتدار کی گرم سلاخ پر کھڑا نہیں کیا۔ 5 جولائی کا فیصلہ بھی حالات کی وجہ سے تھا۔ پورے دور میں بھٹو صاحب کے بارے میں ان کا کوئی قابل اعتراض جملہ ریکارڈ پر نہیں ہے۔ پورا ریکارڈ چھان ماریے، کہیں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ صرف یہ جملہ ملتا ہے کہ ’مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے۔‘ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا، لیکن اس سال مارچ میں کیا ہوا؟
پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے وقت اس کے کارکن مزار پر توڑ پھوڑ کرکے گئے۔ کوئی گلہ نہیں، گلہ صرف ان سے ہے جن کے لیے جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ میری عمر بھی ان کو لگ جائے۔ یہ خود بھی اور ان کی پوری جماعت بھی جنرل ضیاء الحق شہید کے مزار کی بے حرمتی پر نہ صرف خاموش رہی بلکہ بے حرمتی کرنے والوں کے پہلو میں بیٹھ کر ملک کو سیاسی لحاظ سے غیر مستحکم کرنے کے منصوبے بناتی رہی۔