بڑے افسوس کی بات ہے کہ جنوب ایشیاء کے ایک بڑے واقعہ کی پاکستان میں میڈیا کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ واقعہ کسانوں کے احتجاج سے متعلق ہے جو وہ بھارت میں بنائے گئے تین نئے قوانین کے خلاف کر رہے ہیں ۔ یہ قوانین بے چارے کسان کیلئے زہر قاتل اور بڑے بڑے کاروباری حضرات کے فائدے کیلئے بنائے گئے ہیں ۔ اگر یہ واقعہ پاکستان میں رونما ہوتا تو بھارتی میڈیا نے آسمان سرپر اٹھالینا تھا کیونکہ بھارت کی صحافتی میشنری پاکستان کے خلاف مواد ڈھونڈتی پھرتی ہے ۔ مثال کے طور پر آپ گوگل پر بھارت میں کرپشن کے واقعات ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو سرچ انجن آپ کو خود بخود پاکستان میں کرپشن کے واقعات کھول کر دے دے گا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھا رتی حکومت کا میڈیا پرکس قدر سخت کنٹرول ہے جبکہ پاکستان اس بارے میں بالکل بے بہرہ ہے ۔بین الاقوامی میڈیا بہرحال اس واقعے کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے اخبارات اوررسائل مثلاًنیو یارک ٹائیمز، واشگٹن پوسٹ، گارڈین ،بی بی سی ،سی این این اور دیگراخبارات اور رسائل نے کسانوں کے احتجاج کی مکمل اور مسلسل کوریج دی ہے ۔اسی طرح امریکہ ، برطانیہ ، یوریپن یونین ، کینیڈا اور آ سٹریلیا کا میڈیا بھی اس مسئلے کو پوری طرح اجاگر کر رہا ہے جو اس وقت بین الاقوامی توجہ حاصل کر چکا ہے اور بھارت کے اندر سے بھی کسانوں کی حمایت میںآواز یں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب پوری دنیا میں پتہ چل چکا ہے کہ بھارت میں کسانوں پر کیا کیا زیادتیاں کی جا رہی ہیں اور کس طرح ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاجا ر ہا ہے ۔یہ واقعہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس احتجاج کو چوتھا ہفتہ شروع ہو چکا ہے ۔ دہلی اور اسکے گردونواح میں کسانوں نے اپنے کیمپ لگا رکھے ہیں اور بین الاقوامی اداروں سمیت بھا رت کی اندرونی این جی اوز ان کسانوں کیلئے شامیانے اور کھانا وغیرہ مہیا کر رہی ہیں ۔کسانوں کے مطالبات جائز اور حقیقت پر مبنی دکھائی دیتے ہیں ۔ بھا رت ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس کی زراعت بھی بڑی ہے۔ بھارتی کسانوں کی مشکلات بھی بڑی بڑی ہیں ۔ زراعت کے شعبے سے بھارت کی 70 فی صد آبادی کو اناج حا صل ہوتا ہے ۔ سواارب کے قریب ہے ۔ بھا رت کی2.7 ٹریلین ڈالر کی معیشت میں زراعت کا حصہ تقریبآ ـــ 15 فی صد ہے ۔1970 کے سبز انقلاب کی بدولت بھارتی زراعت میں خاطر خواہ ااضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور بھارت نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اجناس کو برآمد بھی کرنا شروع کر دیا تھا لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں سے زراعت سے ہونے والی آمدنی نہ صرف ایک جگہ پر کھٹری ہے بلکہ اکژجگہوں پر آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے جسکی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے تا کہ معاملات میں بہتری لائی جا سکے ۔2015-16کے بھا رت کی وزارت زراعت کے سروے کے مطابق 85 فی صد بھارتی کسانوں کے پاس دو ایکڑ سے بھی کم زمین ہے جبکہ صرف ایک فی صد کسان 10ایکٹر یا اس سے زیادہ زمین کے مالک ہیں ۔ پانی کی قلت ،سیلاب،موسمیاتی تبدیلی اور قرضوںکی وجہ سے خاص طور پر بھارتی پنجاب کے کسان زیادہ پسے ہوئے ہیں۔پنجاب گورنمنٹ کی 2017کی ایک رپورٹ کے مطابق 2039تک پنجاب میں پانی ختم ہو جائے گا ۔1990سے آج تک 3لاکھ سے زیادہ کسان حالات سے تنگ آ کر خود کشی کر چکے ہیں جس میں سے صرف 2019میں دس ہزار سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ کسانوں کی ایک بڑی تعداد کاشتکاری سے دستبردار ہو چکی ہے۔ 2011ء کے ایک سروے کے مطابق دو ہزار کسان روزانہ کا شتکاری چھوڑ رہے ہیں۔ 1950کے اوائل میں کسانوں کو تحفظ دینے کیلئے ایسی منڈیاں بنائی گئی تھیں جن میں کسان کو امداد ی قیمت دینے کے انتظامات کئے جاتے تھے لیکن اب نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت نے کسانوں کو امبانی ، ٹاٹا اور برلا جیسے امیر کبیر کاروباری خاندانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ابھی تک 28کسان احتجاج کے دوران جان کی بازی ہار چکے ہیں جنہیں بھارتی میڈیا اور حکومت دہشت گرد ، قوم پرست ، نکسالائیٹ اور تحریک خالصتان کے نمائندے ظاہر کر رہی ہے۔ مودی حکومت کو اتنی توفیق نہیں ہے کہ بھارتی آئین کے مطابق کسانوں سے متعلق نئے قوانین لاسکے ۔ کسان بھارتی حکومت کو جمہوریت کے نام پر ایک بند نما داغ کا نام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کچھ حقیقت پسند لوگ جن میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ ، ٹیچر ، نوجوان ، ریٹائرڈفوجی اور کھلاڑی شامل ہیں کسانوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کسانوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے تا کہ کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکا جا سکے لیکن طاقت کا یہ استعمال نا کافی ثابت ہو رہا ہے ۔ پورے بھارت سے کسان دہلی کی طرف رواں دواں ہیں۔ ہر یانہ ، راجستھان ، اتر پر دیش ، اتارکھنڈ ، مہارا شٹر اور مدھیا پر دیش سے کسانوں کے قافلے دہلی آرہے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا اور آسٹر یلیا کے پچاس سے زیادہ شہروں میں بھارتی سکھوں کے 400سے 600خاندان احتجاج کر رہے ہیں جبکہ بھارتی حکومت نے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ احتجاج میں شامل بچوں اور بوڑھوں پر تشدد کے واقعات کے پیش نظر کسانوں نے اپنا احتجاج اقوام متحدہ تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارتی حکومت کو کسانوں پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کرانے کیلئے بھارتی حکومت پر اپنا اثر و سوخ استعمال کرے۔ کسانوں نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ اگر ان کے جائز حقوق تسلیم نہ کئے گئے تو وہ آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ کسانوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے جاری دہلی کے محاصرے نے مودی حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔الیکشن کے دوران مودی نے کسانوں کو بڑے سبز باغ دکھائے تھے اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت میں آکر کسانوں کی آمدنی دو گنا کر دی جائے گی لیکن الیکشن کے بعد مودی اپنے سارے وعدے بھول گیا اور کسانوں کے خلاف ایسے قوانین لا رہا ہے جس سے کسانوں کا سرا سر نقصان اور مڈل مین کا فائدہ ہوگا۔مجوزہ قوانین کے مطابق ہول سیل مارکیٹیں تقریباََ ختم ہو جائیں گی جسکا مطلب یہ ہوگا کہ اگر کسان پرائیوٹ خریدار کی لگائی گئی قیمت سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ واپس منڈ ی میں جا کر اپنی فصل کی قیمت نہیں لگواسکے گا۔ یعنی اسکے پاس پرائیوٹ خریدار کو فصل بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے جو قیمت پرائیوٹ خریدار لگائے گا وہ کسان کو قابل قبول نہیں ہوگی جسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسان پرائیوٹ خریدار کا غلام بن کر رہ جائے گا۔ مودی سرکار کسانوں کے ساتھ یہ زیادتی اس لئے کر رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ کسان ہی دراصل تحریک خالصتان کے پیچھے محرک ہیں ۔ کسانوں کے احتجاج کو روکنے کیلئے مودی سرکار کسانوں کو دہشت گرد ، علیحدگی پسند اور تحریک خالصتان کے کارندے ظاہر کر رہی ہے ۔ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کسانوں کا احتجاج دبایا نہیں جا سکتا۔
